• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پورے یقین، پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ فقیر کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ جن کے بل بوتے پر وہ ببانگ دہل متجسس دعویٰ کرتا پھرے۔ فقیر کی آگاہی کے وسائل اس کے اپنے ہیں۔ ان وسائل کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ کورونا کے بارے میں فقیر کی آگاہی اردو، ہندی اور انگریزی ٹیلی وژن چینلز تک محدود نہیں ہے۔ فقیر کو یقین ہے کہ کورونا وائرس God Sentنہیں ہے یعنی کورونا وائرس قدرت کی طرف سے بھیجا ہوا نہیں۔ کورونا وائرس Man-madeہے یعنی یہ وائرس سائنسدانوں کی ایجاد ہے۔ اس میں حیران ہونے جیسی کوئی بات نہیں۔ اگر سائنسدان ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو پھر سائنسدان بایو لوجیکل بم کیوں نہیں بنا سکتے۔ سائنسدان اگر کیمیکل ویپن بنا سکتے ہیں جس کے استعمال سے انسان جھلس جاتا ہے اور کھال ادھڑ جاتی ہے تو پھر سائنسدان کورونا وائرس کیوں نہیں بنا سکتے؟ جس روز قدیم دور کے انسان نے اپنے مدِمقابل کو دور سے وار کرکے مارنے کے لئے تیر کمان ایجاد کیا تھا، تب محسوس کرنے والوں نے محسوس کر لیا تھا کہ آگے چل کر سورما دو بدو مدِمقابل ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو دور سے مارنے کے لئے نئی نئی ایجادات کرتے رہیں گے۔ ریوالور، رائفلیں، راکٹ، بم اور کیمیائی ہتھیار تیر کمان کا تسلسل ہیں۔ کورونا وائرس بھی دور سے مار ڈالنے اور مفلوج کرنے کا ہتھیار ہے۔ یہ میری سوچ نہیں، فقیر کی سوچ ہے۔

فقیر نے کیوں محسوس کیا کہ کورونا وائرس نظر نہ آنے والا ہتھیار ہے؟ آج کے جدید دور میں ایسے ایسے خودکار ہتھیار تیار کئے گئے ہیں جو ٹھیک نشانے پر جاکر لگتے ہیں۔ کورونا کو منتخب نشانوں پر آزمایا جا رہا ہے۔ کورونا بنانے والوں نے اپنی ایجاد آزمانے کیلئے غریب، مفلس، پسماندہ، غلیظ اور طرح طرح کے امراض میں گھرے ممالک کا انتخاب نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی بھیانک ایجاد آزمانے کیلئے انتہائی ترقی یافتہ، دولت مند اور فوجی لحاظ سے بےانتہا طاقتور ممالک کو چُنا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک ان کے نشانے پر ہیں۔ ایشیائی ممالک میں پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک پر صرف کورونا کا مفلوج کرنے جیسا خوف طاری ہے۔ پاکستان اور بھارت نے کورونا وائرس کا مزہ نہیں چکھا ہے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گننے کے برابر ہے۔ پاکستان میں سینکڑوں کے حساب سے روزانہ لوگ کینسر، ہارٹ اٹیک، گردوں اور جگر کی بیماریوں اور ڈیلیوری کے دوران مر جاتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے روزانہ مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ آج تک کسی نے نہیں لگایا۔کورونا وائرس کے حوالے سے فقیر ایک اور تھیوری پر بھی سوچ بچار میں پڑا ہوا ہے۔ کورونا وائرس سے وابستہ سائنسدان کچھ خاص اعداد و شمار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کے بعد ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کا سائنسی تجزیہ کر رہے ہیں۔ کورونا سے متاثرہ ممالک کے حکمراں ان حقائق سے واقف ہیں مگر اپنی رعایا کو ان حقائق سے آگاہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اس وقت امریکہ سے لیکر برصغیر تک کروڑوں بلکہ اربوں گاڑیاں روڈ راستوں سے غائب ہیں۔ آلودگی کا نام و نشان غائب ہو چکا ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے دو تین مہینوں سے بند پڑے ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں سے خارج ہونے والے زہریلے مادے ماحول کو ناقابلِ برداشت نہیں بناتے۔ ان سے اٹھنے والی آوازوں کی آلودگی سے دنیا قدرے پاک ہو چکی ہے۔ حاکموں نے طے کر لیا ہے کہ جب تک سائنسدان اپنے مطلب کے اعداد و شمار حاصل نہیں کر لیتے وہ گاڑیوں اور کارخانوں کو چلنے نہیں دیں گے۔ اس کام میں زیادہ تعاون کرنے والے حاکموں کو امداد کی مد میں زیادہ پیسہ مل رہا ہے۔ اس تعاون میں خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا نے لوگوں کو ڈرانے اور مر جانے کے خوف میں مبتلا کرنے کے نیک کام میں موثر کردار ادا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے، اگر ہم کورونا سے بچ گئے تو پھر قیامت تک زندہ رہیں گے۔ حکومتوں نے اپنی رعایا کو کورونا سے اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ لوگوں نے کینسر، دل کے امراض، ایڈز، رینل فیلیوئر جیسی بھیانک بیماریوں سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے۔ لوگ نہیں مانتے کہ کینسر سے دنیا بھر میں روزانہ ہزاروں آدمی مر جاتے ہیں۔ لوگوں نے عقیدہ بنا لیا ہے کہ ہم صرف اور صرف کورونا سے مر سکتے ہیں۔ کسی اور بیماری سے ہم نہیں مر سکتے۔

آپ نے اوزون لیئر کا نام ضرور سنا ہوگا۔ زمین سے بیس پچیس کلومیٹر اوپر کھلی آنکھ سے نظر نہ آنے والی قدرتی دبیز تہہ بنی ہوئی ہے۔ اوزون لیئر سورج کی ناقابلِ برداشت جھلسا دینے والی شعاعوں اور زمین کے درمیان حائل رہتی ہے۔ فقیر کی غیرسائنسی سوچ کے مطابق پچھلے تیس پینتیس برسوں میں انسان نے زمین پر ماحول اس قدر گندا کر دیا ہے کہ ہوا میں آلودگی کی وجہ سے اوزون لیئر میں کہیں شگاف پڑتے ہیں تو کہیں ڈرائونے سوراخ بن جاتے ہیں۔ سورج کی جھلسا دینے والی شعاعوں کی وجہ سے زمین پر ماحولیاتی حرارت ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ انسان، جانور، نباتات، زراعت، پانی پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ یہ جو پچھلے ہفتے سائنسدانوں نے اوزون لیئر کے شگافوں اور سوراخوں کے بند ہونے کی نوید دنیا کو سنائی ہے، وہ لاک ڈائون کے سبب ممکن ہوئی ہے۔ مگر کب تک؟ سرکار! طویل لاک ڈائون سے لوگ کہیں ناک ڈائون نہ ہو جائیں!

تازہ ترین