• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کی طرف سے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے۔ اس فیصلے کے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ بلوچستان میں جب تک بدامنی کا خاتمہ نہیں ہوگا‘ تب تک پاکستان داخلی استحکام کے خطرات سے دوچار رہے گا۔ پاکستان کی تمام جمہوری قوتوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل تقریباً چار سال کے بعد جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس پہنچے اور اُنہوں نے کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر اپنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ارکان سے طویل مشاورت کرکے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے انتخابات کے منصفانہ‘ شفاف اور پُرامن انعقاد کے لئے بعض تجاویز بھی دیں‘ جن پر نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے۔ بلوچستان کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کی ذمہ داری صرف بلوچستان کی سیاسی قوتوں پر ہی نہیں بلکہ پوری قوم پر عائد ہوتی ہے۔
اس وقت بلوچستان جن حالات سے دوچار ہے‘ وہ پاکستان میں غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کا نتیجہ ہیں۔ بلوچ ہمیشہ اس بات پر ناراض رہے کہ قیام پاکستان کے بعد بلوچوں کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے اور بعدازاں بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمرانوں نے عوام کی مرضی کے خلاف فیصلے کئے اور عوام کی مرضی کے خلاف اقتدار پر قابض رہے۔ اب جبکہ پاکستان میں جمہوریت جڑیں پکڑ رہی ہے‘ بلوچوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ پاکستان کی تمام جمہوری قوتیں اُن کے ساتھ ہیں اور اُن کے مطالبات کی حامی ہیں۔ یہ جمہوریت کا ہی نتیجہ ہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی پر تمام جمہوری اور سیاسی قوتوں نے اُن سے لاتعلقی کا اظہار کیا جبکہ سردار اختر جان مینگل کی واپسی پر اُن سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ سردار اختر مینگل سے جب ایئر پورٹ پر کسی صحافی نے پرویز مشرف سے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے کہاکہ ”یہ پرویز مشرف کون ہیں، یہ نام کچھ جانا پہچاناسا لگتا ہے“۔ سردار اختر مینگل کا یہ انداز لوگوں کو اس لئے اچھا لگا کہ لوگ فوجی آمروں سے نفرت کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی لوگ اُن کا نام بھی بھول گئے ہیں۔ یہ جمہوریت کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک سابق فوجی آمر ہوٹل کے ایک کمرے میں قید ہوکر بیٹھا ہے اور اختر مینگل جیسے سیاسی قائدین عوام سے رابطہ کررہے ہیں۔ سردار اختر جان مینگل نے دو دن انتہائی بہادری کے ساتھ گزارے‘ جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اُنہیں نظر بند کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اُن کے ساتھیوں کو بھی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ کوئی فوجی آمر اس طرح کی بہادری کا مظاہرہ نہیں کرسکتا کیونکہ نہ تو اُس کا عوام سے تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی اُس میں وہ جرأت ہوتی ہے‘ جو عوام سے محبت اور ایک سیاسی نظریئے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کایہ قول ہر لمحے درست ثابت ہورہا ہے کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ سردار اختر مینگل کو قید تنہائی میں رکھنے والے پرویز مشرف آج پاکستان میں آکر کسی گرفتاری کے بغیر خود ہی اپنے آپ کو قید رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی اصل حکمران اشرافیہ سے بلوچوں کی ناراضی بجا ہے لیکن جو کچھ بلوچوں کے ساتھ ہوا‘ اُس سے پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام بھی نہیں بچ سکے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کی اصل حکمران اشرافیہ نے سب سے پہلا وار پنجاب پر کیا اور وہاں یونین پارٹی کی حکومت ختم کردی۔ اس طرح پاکستان میں سب سے پہلے پنجاب کے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ پڑا۔ اُس کے بعد پاکستان سیاسی قوتوں کو کچلنے اور سیاسی عمل کو ختم کرنے کے لئے ”ایبڈو“ اور ”پروڈا“ کے سیاہ قوانین کے ذریعے سیاستدانوں کا جو احتساب شروع کیا گیا‘ اُس کا سب سے زیادہ شکار پنجاب کے سیاستدان ہوئے۔ بعدازاں پنجاب والی کہانی سارے صوبوں میں دہرائی گئی۔ خیبرپختونخوا کی حقیقی سیاسی قیادت کے خلاف بھی پاکستان کی اصل حکمران اشرافیہ نے یہی رویہ اختیار کیا‘ جو بلوچوں، سندھیوں اور پنجابیوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔ سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے سیاستدانوں کو بھی غدار کہا گیا۔ پاکستان کی جمہوریت مخالف حکمران اشرافیہ کے خلاف پنجاب سمیت تمام صوبوں کے عوام نے مزاحمت کی یہ اور بات ہے کہ مزاحمت کے طریقے مختلف تھے۔ پنجاب کے عوام نے کبھی بھی جمہوریت کی مخالفت نہیں کی۔ پنجاب کے لوگوں نے بھی جمہوریت کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کوڑے بھی کھائے‘ بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے عوام جمہوریت کے حامی ہیں اور بلوچوں کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئی ہیں‘ اُن کے مخالف ہیں۔نواب نوروز خان سے لے کر نواب اکبر بگٹی کی شہادت تک بلوچ مزاحمتی تحریک میں کئی المناک واقعات رُونما ہوئے‘ جن پر پوری قوم کو افسوس ہے۔ بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کے اغوا اور قتل پر بھی پوری پاکستانی قوم کو دکھ ہے۔ لاپتہ کارکنوں کے معاملے کو جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان نے اُٹھایا ہے‘ اس پر وہ خراج تحسین کی مستحق ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کو سیاسی جماعتوں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور پوری پاکستانی سول سوسائٹی کی اخلاقی حمایت حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم بلوچوں کے ساتھ ہے۔ سندھ میں بھی ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے بچوں کے بہیمانہ قتل پر لوگوں میں بہت غم و غصہ ہے لیکن سندھ کے عوام نے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا۔ خیبرپختونخوا میں بھی پاکستان کی اصل حکمران اشرافیہ کے مظالم کم نہیں ہیں۔ اُنہوں نے اپنے غیر جمہوری مقاصد کے لئے خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں کو عالمی سامراجی جنگ کا میدان بنا دیا اور ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی نسل کشی کا عمل شروع کرا دیا‘ جو آج تک جاری ہے۔ یہاں کے لوگوں نے بھی جمہوری راستہ اختیار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت نہ صرف بہترین انتقام ہے بلکہ بہت سے مسائل کا حل بھی ہے۔
چیف الیکشن کمیشن جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اگلے روز کوئٹہ میں قوم پرست جماعتوں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی اور اُن سے اپیل کی کہ وہ عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیں اور ”بلٹ“ کی بجائے ”بیلٹ“ سے تبدیلی لے آئیں۔ اُنہوں نے بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کو یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ انتخابات کے دوران قیام امن پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بندوق کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بی این پی مینگل کے رہنماؤں نے انتخابات میں حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ وہ اُن کی اعلیٰ سیاسی بصیرت کا مظہر ہے۔ اُنہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے بھی دیکھا اور بعض انتہا پسندوں کے ساتھ سیاسی طور پر قریبی روابط استوار کرکے بھی دیکھ لئے۔ سارے تجربات اُن کے سامنے تھے۔ اُن سے بہتر اس بات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ جمہوریت سے بڑی مزاحمتی تحریک اور کوئی نہیں ہے۔ جمہوریت میں فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ جمہوریت ہی عوام کو اپنے وسائل کی ملکیت عطا کرتی ہے۔ جمہوریت سے ہی وسائل پر ناجائز قبضہ کرنے والے کمزور ہوتے ہیں اور جمہوریت سے ہی عوام کو اُن کے حقوق دیتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کے نمائندوں کو خود جاکر ایوانوں میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ بلوچستان میں قیام امن کے لئے ایف سی کو اختیار دینے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ سیاسی کارکنوں کو اغواء یا لاپتہ کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہئے اور بلوچستان کے لوگوں کو دہشت گردی سے کیسے تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ سارے اختیارات جمہوری عمل سے حاصل کئے جاسکتے ہیں لہٰذا بی این پی (مینگل) کے فیصلے کی جتنی بھی تعریف کی جائے‘ کم ہے۔
تازہ ترین