• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت مولانا طاہر القادری صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ الیکشن سیاسی جماعتوں کے گھوڑوں کے مابین ہو گا اور یہ کہ سب جماعتیں اس وقت گھوڑے چُننے میں مصروف ہیں، یہ بات کچھ مجھ ایسے کم دانش والے شخص کی سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک تو اس لئے بھی کہ گھوڑا ایک انتہائی شریف النفس جانور ہے۔ مالک کا وفادار رہتا ہے۔ جب تک اس کی کمر جواب نہ دے جائے ڈھوتا رہتا ہے۔ اپنا بوجھ کسی اور پر نہیں لادتا۔ حق حلال کی کھاتا ہے۔یہ بیان بازی سے پرہیز کرتا ہے۔ اپنے کھانے پینے کا بل، بیماری کے دوران علاج معالجہ کے اخراجات اپنے حق حلال کے پیسوں سے پورے کرتا ہے۔جس کھونٹے سے باندھ دیا جائے اسی سے بندھا رہتا ہے۔ تو پھر اسمبلیوں کیلئے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو گھوڑے سے تشبیہہ دینا سراسر زیادتی ہے۔ گھوڑے سے ۔ آپ ذرا غور کریں مختلف جماعتوں کے امیدواروں کے جو نام سامنے آ رہے ہیں اور ابھی جو حکومت زیادہ پچھلی نہیں ہوئی ہے اس کے بعض حضرات کے کارناموں پر تو آپ خود سوچنے لگیں گے کہ ان تمام لوگوں میں آخر گھوڑے والی کونسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کی بنا پر انہیں گھوڑے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ملاحظہ کریں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سپیکر، ڈپٹی سپیکر کے علاوہ 32 ممبران اسمبلی نے جن میں کئی وزراء بھی شامل ہیں اپنی سرکاری رہائش گاہوں کے بجلی کے بلوں کی مد میں ایک کروڑ 21 ہزار روپے سے زائد ادا نہیں کئے۔ ان بڑے بڑے ناموں میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، رحمن ملک، فیصل کنڈی، مخدوم شہاب الدین، رانا فاروق سید،سردار لطیف کھوسہ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، میر ہزار خان بجارانی، فاروق ایچ نائیک، حنا ربانی کھر اور دیگر بہت سے لوگ شامل ہیں۔ ان تمام لوگوں نے سرکاری رہائش گاہوں میں رہنے کے دوران ایک ماہ کا بھی بل جمع نہیں کروایا اور یوں یہ بل بڑھتے بڑھتے کروڑوں میں پہنچ گئے۔ خود سوچئے کیا یہ گھوڑوں والی خصوصیت ہے۔ میں نے آج تک نہیں سنا کہ کسی گھوڑے کو نادہندہ قرار دیا گیا ہو۔ پھر دیکھئے ایف بی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق پارلیمینٹ کی دو تہائی اکثریت جو چاہے تو کوئی بھی بل منظور کر سکتی ہے، نے 2011ء میں انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کیں۔ ان کے ذمے کروڑوں روپے کے ٹیکس واجب الادا ہیں۔ ابھی تو یہ لوگ اپنی اصل مالی حیثیت سے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو آگاہ نہیں کرتے وگرنہ شاید یہ رقم اربوں میں ہو۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کسی گھوڑے کو انکم ٹیکس نہ دینے پر نوٹس ملا ہو؟ یقینا ایسا بھی نہیں ہوتا۔ گھوڑا جیسا ہے ویسا نظر آتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ گھر میں مہنگی ترین گاڑیوں کا میلہ لگا ہو اور دکھائے یہ کہ اس کی جائیداد کی کل مالیت چند لاکھ ہے اور اس کے ذمہ کئی لاکھ کا قرض ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو چوہدری پرویز الٰہی کے اثاثے دیکھ لیں۔ ان کا رہن سہن دیکھیں اور ان کے اثاثے دیکھیں؟ بعض اسمبلی ارکان تو اتنے غریب ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ عوام سے التجا کی جائے کہ اپنی زکوٰة میں سے کچھ رقوم ان کے لئے بھیج دیا کریں تاکہ یہ لوگ کم از کم اپنے بل تو ادا کر پائیں۔ ایک طرف یہ لوگ ہیں اور دوسری طرف مہنگائی میں پسے غریب عوام۔ آج ہی کے ایک سروے کے مطابق اس ملک کی اکثریت نے یہ کہا ہے کہ اس ملک کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے۔ اس نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ میں اس بارے میں زیادہ کیا لکھوں صرف ایک خط شامل کر رہا ہوں جسے پڑھ کر شاید آپ کی بھی آنکھوں میں آنسو آ جائیں۔ ہو سکے تو اس غریب کی داد رسی بھی کر دیں۔
ایک جلتے چراغ کو بجھنے سے بچایئے!
محترم جناب عبدالرؤف ! سلام کے بعد عرض ہے کہ یہ میڈیا کا دور ہے لیکن انسان اسی دروازے پر دستک دیتا ہے جہاں سے یہ امید ہو کہ اس کی پکار رائیگاں نہیں جائیگی۔ محترم میں ایک سید سنی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں میرا نام سید سبز علی شاہ ہے اور میں پشاور کے علاقے گلوزئی کا رہنے والا ہوں۔ میرے چار بچے ہیں جن میں تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی حفصہ بی بی ہے جس کی عمر سات سال ہے جو دل کی بیماری میں مبتلا ہے۔ محترم پاکستان بیت المال اور زکوٰة کے دفتروں میں بہت سی درخواستیں جمع کیں مگر ان خیراتی اداروں کے سنگدل افسروں نے جھوٹی تسلی بھی نہیں دی۔ میری بیٹی گھر کی چارپائی پر بیماری کی حالت میں پڑی ہے اور وہ اپنے گھر کے دروازے کی طرف ہر وقت دیکھتی ہے کہ کوئی مسیحا مجھے علاج کیلئے ہسپتال لے جائیگا۔ محترم میں ایک پرائیویٹ اسکول میں 7000 روپے میں بچوں کو اسلامیات پڑھاتا ہوں۔ میرا زیادہ تر وقت ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے کلینکوں میں گزرتا ہے۔ یقین جانیں کہ میری بیٹی کے ننھے منھے ہاتھوں میں بہت انجکشن لگے ہیں جس کی وجہ سے اس کے ننھے ہاتھوں میں نقوش بن گئے ہیں۔ میں آج کل لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر انعام اللہ خان (AFIC) سے بیٹی کا علاج کروا رہا ہوں۔انہوں نے تاکید کی ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر اگر بیٹی کی زندگی چاہتے ہو تو اس کا آپریشن کروا لو اور یہ بھی تاکید کی ہے کہ آپریشن سے دو دن پہلے 5پیکٹ خون جمع کرنے پڑیں گے۔ محترم نہ تو خون کا اور نہ ہی رقم کا بندوبست ہوا ہے۔ کبھی میں اے ایف آئی سی راولپنڈی میں توکبھی رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ پشاور میں اپنی بیٹی حفصہ بی بی کی بیماری کی فائلیں بغل میں پکڑ کر ڈاکٹروں کے آگے پیچھے ذلیل و خوار ہو رہا ہوں۔ بیٹی کی بیماری نے مجھے اور میری بیوی کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں انسان کو سب سے زیادہ تکلیف اپنے لخت جگر یعنی اولاد کی بیماری کی ہوتی ہے۔ محترم میں نے ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر مجھے کسی دروازے سے امید نظر نہیں آئی۔ یقین مانیں کہ صبح اپنی بیٹی کو دیکھ کر آدھا گھنٹہ تک روتا رہا کہ یا اللہ ایسا کونسا گناہ میں نے کیا ہے کہ اس کی سزا میری بیٹی کو مل رہی ہے۔ محترم !مجھے پورا یقین ہے کہ آپ میری بیٹی حفصہ بی بی کو اپنی بیٹی سمجھ کر اس کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور اپنے کالم میں لکھیں گے۔ میں اس انتظار میں ہوں کو کوئی اطلاع دے کہ سید سبز علی شاہ ہسپتال جا کر اپنی بیٹی کا آپریشن کروالو، تو یہ دن میرے لئے کوئی خوشی سے کم نہیں ہو گا۔ محترم ! میرے پاس آنسوؤں، سسکیوں اور دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ایک غریب والد ماسٹر سید سبز علی شاہ ولد سید خان شاہ مرحوم ڈاکخانہ ریلوے سٹیشن دلہ زاک روڈ گاؤں گلوزئی محمد زئی پشاور۔
تازہ ترین