• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا خود تو اتنا تشویشناک نہیں لیکن اس سے پیدا ہونے والا عالمی بحران ناقابلِ پیمائش حد تک تشویشناک ہے۔ اس کا ایک حساس ترین پہلو یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں دنیا کے ہر ملک اور پورے عالمی معاشرے کی ابلاغی ضروریات بمطابق بحران تیزی سے آشکار ہو رہی ہیں۔

کورونا وائرس پیدا ہونے کی وجوہات، اس پر قابو پانے کے طریق اور حکمت ہائے عملی، عالمی ابلاغی بہائو Global Communication Flow انسانیت پر انتہا درجے غالب ہو چکا ہے۔ جس کا باٹم لائن ہی نہیں عملاً اثر ’’موت کا خوف‘‘ ہے جو تمام تر انسانی زندگی پر حاوی ہو گیا ہے، دوسرا ’’بھوک کا‘‘ گویا عالمی ابلاغ انسانیت کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔

جو عالمی جنگوں کے المناک نتائج سے کہیں بڑھ کر خلافِ انسانیت نتیجہ ہے۔ یہ عالمی ابلاغی بہائو حکمرانوں، سائنس دانوں، صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے متضاد احکامات، آرا، اطلاعات اور تجزیوں سے اَٹا پڑا ہے جو پوری عالمی آبادی کو نفسیاتی مریض بنا رہا ہے۔

گویا اجتماعی انسانی عقل شل ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’مت ماری گئی ہے‘‘ یعنی دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔

عالمی معاشرے میں پاکستان کی حیثیت و اہمیت کتنی ہے؟ کچھ بھی تو نہیں اور بےپناہ۔ یہ کیا بات ہوئی؟ جی ہاں! ایسا ہی ہے، ہم سے زیادہ پیچیدہ اور الجھی ہوئی شاید ہی کوئی اور قوم ہو گی۔ ہم اپنے بیش بہا عطائے قدرت وسائل کو استعمال کرنے میں بےکس و مجبور امیر ترین ہیں، اتنے ہی غریب اور سدا کے ہینڈ ٹو مائوتھ ہیں۔

ہم پانچ دریائوں کی سرزمین سے آٹا چینی کے بحران اور مہنگی ترین سبزیوں، پھلوں کی اکانومی تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، ایٹم بم بنا سکتے ہیں، ملک میں بدترین جمہوریت ہو یا بہترین آمریت، ہم عالمی بھکاری کے درجے پر رہے ہیں لیکن خیرات و زکوٰۃ و صدقات میں دنیا کی چوٹی کی اقوام میں شامل ہیں۔

ہم اپنے شہرہ آفاق دریائی قدرتی نظام کا بیش قیمت پانی بغیر کاشت و توانائی پیدا کیے سمندر میں بہا دیتے ہیں پھر اتنے بڑے کفرانِ نعمت پر کچھ بات کرنے کو بھی کفر جانتے ہیں اور ڈالروں میں اپنا وقار اور خودی گروی رکھ کر ڈالروں سے تیل، گیس درآمد کرکے بمشکل بجلی کی ضروریات پورے کرتے ہیں۔

پاکستانی قوم اپنے ہی ساتھ کتنے سنگین مذاق کی مرتکب ہے۔ ایسے کہ مطلوب ابلاغی معاونت کی دستیابی، قیامِ پاکستان کے چار انتہائی بنیادی پوٹینشل میں سے ایک تھی، پاکستان بنانے ہی نہیں اسے چلانے، بچانے، سنوارے اور نکھارنے میں بھی ہمارے بعد از قیامِ مملکت ملاوٹ شدہ قومی ابلاغ دھارے نے کام دکھایا اور خوب دکھایا، اس کی نشاندہی ’’آئین نو‘‘ میں نئی نسل کو پاکستان کی تاریخ و حال سے آشنا رکھنے کے لئے کی جاتی رہی ہے۔

پاکستان کی موجود بڑی پیچیدگیوں میں سے ایک بڑی یہ ہے کہ عالمی اجتماعی عقل کی جاری و ساری ’’مت ماری‘‘ میں جبکہ عالمی دھارا ابلاغ بھی تمام تر عالمی امور دہشت گرد بن گیا ہے، یوں کہ انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ’’موت‘‘ خوف کو بہائو پر بےپناہ حاوی کر کے، فطرتِ انسانی میں سماجی تعلق، قربت، رشتے اور باہمی انحصار کو کمزور تر بنا کر تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی اور سائنٹیفک عالمی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ہم پاکستانی کم از کم ترقی پذیر دنیا میں ابلاغیات کی تاریخ، اس کے استعمال کی صلاحیت کے حصول کی صلاحیت کے استعمال کے ریکارڈ بطور رہنمائی کے اعتبار سے چوٹی کی ایک پوٹینشل مملکت ہیں لیکن باوجود اس کے کہ کورونا بحران میں ’’ہماری مت‘‘ عالمی مت ماری کے مقابل کم تر ہے۔

ہم نے عقل کے خوبصورت استعمال اور پوری جرأت سے ’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ کی متوازن حکمت عملی اختیار کر کے، دنیا کے مقابل تباہ کن ’’خوف‘‘ کو کم تر ہی رکھا لیکن پاکستان کے حکمران یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ جہاں انہوں نے بہترین حکمت عملی سے ’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ کی راہ نکالی، اپنی متنازع گورننس میں گڈ گورننس کا پہلا بہترین قدم اٹھایا جو ان کی کتنی ہی غلطیوں، کوتاہیوں اور ڈیزاسٹرز کو کور کر گیا۔

اس کو نہ صرف مزید نتیجہ خیز ہی بنانے کے لئے نہیں، بلکہ شرفِ انسانی کی عقلِ سلیم سے جڑی دوسری خدائے عطاوندی ’’ابلاغ‘‘ کی صلاحیت کو بمطابق کام میں لا کر دنیا بھر میں امتیاز پیدا کریں۔ لازم ہے کہ ہم اپنے ابلاغی پوٹینشل کی پیچیدگی کو ختم کریں جو اس کڑے وقت سے پہلے ہی پیچیدہ ترین ہو کر قومی نقصان کا سبب بن رہی ہے۔

خدارا! انائیں اور اختلافات جائز بھی ہیں تو ان کی شدت کو سردست ایک طرف رکھ کر ’’قومی ابلاغی پوٹینشل‘‘ کے نئے کردار کا تعین بمطابق صورتحال کریں جس کا باٹم لائن قوم کو خوف، معاشی تفکر کے دبائو سے نکال کر بحران سے نپٹنے کی مقامی سازگار طریق ہائے مینجمنٹ، موریل بوسٹنگ اور مزید شدید مطلوب ابلاغی ضروریات کی نشاندہی کر کے ’’قومی ابلاغی پالیسی برائے کورونا بحران‘‘ تشکیل دی جائے، لیکن ہمارے دونوں حکومتی نئے منیجر ایسا کوئی بھی اہتمام کرنے سے پہلے یہ نہ بھولیں کہ ’’ارتقائی عمل کے ملک و معاشرے کو فیضیاب کرنے کا کوئی بدل نہیں‘‘۔

پاکستان میں ’’قومی ابلاغی پوٹینشل‘‘ کی پیچیدگی اور اس سے نکلنے والے عالمی ابلاغی بہائو جیسے مہلک نتائج کی سی پیچیدگی کو ہر حال میں ختم کرنا ہو گا جو ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک اور ایڈیٹر انچیف کی بلا جواز اور غیرقانونی گرفتاری بذریعہ نیب ہونے سے اپنی انتہائی شکل میں آئی ہے۔

ان کی بلاتاخیر رہائی اور بےروزگار ہونے والے اور کئی مہینوں سے تنخواہ سے محروم صحافیوں ابلاغی اداروں کو سرکاری واجبات کی ادائیگی سے پاکستان کے موجودہ پوٹینشل کو بمطابق استعمال کرنے کی صورت پیدا ہوگی۔ یہ معاملہ ایک فرد کی فوری مطلوب رہائی یا ایک ادارے کے کارکنوں پر معاشی دبائو ختم کرنے کا ہی نہیں۔

اگر حکومت سمجھتی ہے کہ بحران سے نپٹنے کے لئے قومی ابلاغی پوٹینشل کو حالات کے مطابق لانا ناگزیر ہے تو اس میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔ فقیر کی یہ بات نوٹ کر لی جائے کہ پورے میڈیا کا سین بمطابق کرنے کا آغاز ارتقائی تنازل طے کرنے والے میڈیا گروپ پر ’’سیاسی نوعیت‘‘ کا پائوں کو تسکین دینے والے دبائو سے ہی ختم ہوگا، قومی ضروریات کے مقابل حکومتی، سیاسی اور گروہی تسکین یا ’’ضرورتیں‘‘ ہیچ ہیں۔

تازہ ترین