• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ تقریباً 14برسوں میں امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کے نتیجے میں نہ صرف وطن عزیز میں 70ہزار افراد جاں بحق اور کئ ہزار زخمی یا معذور ہوچکے ہیں بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی تقریباً 116؍ارب ڈالر (تقریباً 9700؍ ارب روپے) کا نقصان ہوچکا ہے۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کیلئے برقرار رکھی گئی ہماری اپنی معاشی پالیسیوں اور مالی و ذہنی (انٹلیکچوئل)کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی کی جنگ کے مقاصد حاصل نہیں ہورہے۔ وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی ان پالیسیوں اور اقدامات کے ضمن میں چند چشم کشا حقائق نذر قارئین ہیں۔
(1) آزادی کے 68برس بعد 31؍ دسمبر 2015ء کو پاکستان کے بیرونی و داخلی قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم 20148؍ارب روپے تھا۔ ہم نے اپنے 18؍دسمبر 2014ء کے کالم میں لکھا تھا کہ مالی کرپشن اور ٹیکس کی چوری سے قومی خزانے کو 21 ؍ ارب روپے یا 7800؍ ارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ اب یہ نقصان 22؍ ارب روپے روزانہ ہوگیا ہے۔ نیب کے نمائندے نے چند روز قبل یہ تسلیم کیا کہ یہ نقصان 14؍ ارب روپے روزانہ یعنی 5000؍ ارب روپے سالانہ ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ گزشتہ 5برسوں میں کرپشن اور ٹیکس چوری وغیرہ سے مجموعی طور پر جو نقصان ہوا ہے اس کا حجم پاکستان کے مجموعی قرضوں کے حجم سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ پاکستان کی اولین ترجیح ان نقصانات پر ممکنہ حد تک قابو پانا ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے اس طرف توجہ نہیں ہے۔ ملک کے 5بڑے بینکوں کے قرضوں کےحجم میں 2014ء کے مقابلے میں 2015ء میں صرف 38؍ ارب روپے کا معمولی اضافہ ہوا جبکہ اسی مدت میں ان بینکوں کی مجموعی سرمایہ کاری میں 977؍ ارب روپے کا زبردست اضافہ ہوا ۔ اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ حکومتی تمسکات میں لگایا گیا تاکہ ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن کی وجہ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کیا جاسکے۔ تجارتی بینکوں کا اصل کام عوام سے ڈپازٹس کی شکل میں رقوم لے کر صنعت ، تجارت، زراعت ، برآمدات اور مائیکروفنانس وغیرہ کے لئے قرضے فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ معیشت ترقی کرے اور ملک میں روزگار کے زیادہ مواقع فراہم ہوں۔ آپریشن ضرب عضب کے دوران بھی آئی ایم ایف کے مشورے سے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے تعاون سے نجی شعبے کو قرضے فراہم نہ کرنا دراصل آپریشن ضرب عضب کے مقاصد پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔
(3) پاکستان میں تعلیم کا شعبہ دہشت گردوںکے نشانے پر رہا ہے جبکہ وفاق اور چاروں صوبوں نے بھی قومی تعلیمی پالیسی 2009ء سے انحراف کرتے ہوئے 2015ء میں تعلیم کے شعبے میں تقریباً 1350؍ ارب روپے کم مختص کرکے تعلیم کے شعبے کو ہی نشانہ بنایا ہے۔
(4) ہم ان ہی کالموں میں گزشتہ دو دہائیوں سے کہتے رہے ہیں کہ پاکستان میں مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کا تناسب 18-20فیصد ہونا چاہئے۔ آئی ایم ایف نے بھی 24؍مارچ 2016ء کو کہا کہ یہ تناسب 20فیصد ہونا چاہئے۔ پاکستان نے بہرحال دو ماہ قبل 2018ء تک ٹیکسوں کے تناسب کے ہدف کو 15فیصد سے کم کرکے 13فیصد کردیا ہے چنانچہ خدشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لئے خاطر خواہ رقوم دستیاب نہیں ہوں گی جس سے انتہا پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے جوکہ دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
5)) حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں توسیع کرتی چلی جارہی ہے۔ تخمینہ ہے کہ اس ماہ کے آخر تک ٹیکس کی چوری اور کرپشن سے کمایا ہوا 100؍ ارب روپے کا کالا دھن صرف ایک ارب روپے ٹیکس دے کر سفید کرالیا جائے گا۔ اگر اس اسکیم کے بجاے ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جاتا تو حکومت کو دوہزار ارب روپے کی وصولی ہوتی۔ اسی طرح اگر انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4)III منسوخ کردی جائے تو ٹیکسوں کی مد میں تین ہزار ارب روپے سالانہ کی اضافی وصولی ممکن ہے۔مندرجہ بالا حقاق کی روشنی میں یہ بات واضح ہےکہ اگر آپریشن ضرب عضب کے تحت طاقت کا بھرپور استعمال کرنا ہی تھا تو یہ بھی انتہائی ضروری تھا کہ غربت بے روزگاری ، عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے اور قبائلی بھائیوں کے دل و دماغ جیتنے کے لئے جو اضافی مالی و سائل درکار ہیں ان کے حصول کے لئے حکمت عملی وضع کی جانی چاہئے تھی۔ ان اقدامات سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے چنانچہ نہ صرف آپریشن ضرب عضب شروع کرتے وقت یہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے بلکہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی جو سول و ملٹری قیادت کی اجتماعی دانش کے تحت بنایا گیا تھا ان اصلاحی قدامات کو نظرانداز کردیا گیا ۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں ناجائز طریقوں سے کمائی ہوئی 150؍ ارب ڈالر کی رقوم بیرونی ملکوں میں منتقل ہوچکی ہیں جہاں ان رقوم کو محفوظ جنت فراہم کی گئی ہے۔ ہنڈی و حوالے کا مذموم کاروبار بدستور جاری ہے۔
نواز شریف صاحب نے اپنے پچھلے دور میں ملک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو اجازت دی تھی کہ وہ پاکستان میں بیرونی کرنسی میں کھاتے رکھ سکتے ہیں چنانچہ ہوتا یہ رہا ہے کہ ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت سے کھلی منڈی سے آہستہ آہستہ ڈالر خرید کر اس رقم کو بینک میں جمع کرادیا جاتا ہے۔ ملکی قوانین کے تحت اس رقم کو بینک کے ذریعے باہر منتقل کرنے کی مکمل آزادی ہے چنانچہ قانونی طریقے سے بھی سرمایہ باہر منتقل ہورہا ہے۔
پاکستان کی قیادت اب یہ تسلیم کررہی ہے کہ ضیاء اور مشرف دور میں امریکی اتحادی بننا بڑی غلطیاں تھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گزشتہ 7برسوں میں پاک افغان سرحد پر باڑلگوانے یا نگرانی کا موثر نظام شروع کرنے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے کی امریکی ضمانت حاصل کئے بغیر سوات اور جنوبی و شمالی و زیرستان میں فوجی آپریشن کرنا دانشمندانہ بات نہیں تھی۔ اس ضمن میں کوشش اب بھی جاری رہنا چاہئیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ وفاق اور صوبوں کو ایک مقررہ رقم سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ موثر طور سے ٹیکس عائد اور وصول کرنے ، معیشت کو دستاویزی بنانے، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنے، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 4)III کو منسوخ کرنے، مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7فیصد اور صحت کی مد میں 4فیصد مختص کرنے اور دہشت گردوں کو ملنے والی معاونت کے تمام ذرائع کو ممکنہ حد تک مسدود کرنے کو بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے اور اگلے وفاقی و صوبائی بجٹ بھی مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں بنائے جائیں۔ آج کل پناما لیکس کا بڑا چرچا ہے۔ ہم نے اب سے 16برس قبل ربوٰکیس میں 1999ءمیں سپریم کورٹ کو بتلایا تھا کہ ملک سے 100؍ ارب ڈالر کی رقوم لو ٹ کر باہر منتقل کردی گئی ہیں اور ان کی واپسی کا طریقہ بھی بتلایا تھا جس کی تفصیلات سپریم کورٹ کی بینچ کے چیئرمین کے فیصلے میں موجود ہیں۔ ہم نے 14؍ اپریل 1998ء ، 9؍مئی 2000ء، 7؍نومبر 2000ء ، 16؍ نومبر 2011ء اور 13؍مئی 2014ء کے اپنے کالموں میں بھی اس ضمن میں گزارشات پیش کی تھیں۔ ہم یہ بات پھر عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹیکس کی چوری اور کرپشن سے اور ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے ہوئے کئی ہزار ارب روپے کے ایسے اثاثے ملک میں موجود ہیں جنکی تفصیلات نہ صرف ریکارڈ میں موجود ہیں بلکہ حکومت کی دسترس میں بھی ہیںمگر ان پر بات کرنے کےلئے کوئی بھی تیار نہیں ہے چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ پناما لیکس کے معاملات کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچیں گے۔
تازہ ترین