• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی فلم انڈسٹری میں جب کبھی فلمیں بنا کرتی تھیں تو ہیروئنوں کے درمیان نمبرون کی دوڑ بھی بہت عروج پر تھی اب نہ فلمیں بنتی ہیں نہ نمبرون کی دوڑ ہے ۔ بس ہمارے دوست سید نور ہیں جو سال بعد ایک آدھ فلم بنا لیتے ہیں اور وہی ہیروئن نمبر ون ہوتی ہے چونکہ جن ہیروئنوں کے درمیان نمبر ون کی دوڑ ہوا کرتی تھی ان میں سے کچھ پیا گھر سدھار گئیں اور کچھ ہمسایہ ملک میں کام حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں اور جو باقی بچیں انہوں نے سیاسی جماعتوں کا رخ کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے نمبرون کی دوڑ اب سیاسی جماعتوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ انتخابات کا موسم ہے تو نمبر ون کی یہ دوڑ جلسوں کی لگی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل یعنی30/اکتوبر2011ء کو عمران خان نے مینار پاکستان پر ایک بہت بڑا جلسہ کیا تو اس کے نمبر ون ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ جس کے بعد مختلف حلقوں اور دانشوروں کی طرف سے یہ تبصرے بھی سامنے آئے کہ یہ تو اسٹیبلشمنٹ کا شو تھا۔ اس کامیاب جلسے کے بعد جوق در جوق دوسری سیاسی جماعتوں کے پنجروں میں بند بعض پرندوں نے عمران خان کی جماعت کی طرف اڑان بھری لیکن درمیان میں بعض اداروں کی طرف سے ایسے ایسے سروے آئے جن سے لوگوں کو بتایا گیا کہ عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ عمران خان تو صاف ستھرے لوگوں کو اپنی جماعت میں لینا چاہتے تھے مگر کچھ داغدار اور ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھی بھی شامل ہوگئے ہیں۔ جلسوں کی دوڑ میں اچانک ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے طوفان کی طرح آئے اور مینار پاکستان گراؤنڈ میں ایک بڑا کامیاب جلسہ کر کے لانگ مارچ کیلئے اسلام آباد روانہ ہوئے۔ نہ صرف ان کا جلسہ کامیاب تھا بلکہ لانگ مارچ اور دھرنا بھی کامیاب رہا پھر اچانک وہ کینیڈا سدھار گئے اور واپس آکر17مارچ کو الیکشن کمیشن اور نظام الیکشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ نہ لینے اور انتخابات کے روز پولنگ اسٹیشنوں کے قریب دھرنے دینے کااعلان کر دیا ہے۔ اگر الیکشن ہوئے تو یہ دھرنے کامیاب بھی ہوں گے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ بات جلسوں کی ہو رہی ہے تو عمران خان نے ایک بار پھر 23مارچ 2013ء کو مینارپاکستان کے گراؤنڈ میں کامیاب جلسہ کر کے یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش کی کہ تحریک انصاف کے پیچھے کوئی ایجنسی نہیں۔ ان کے اس جلسے کے دو دن بعد نواز شریف نے مانسہرہ میں ایک بڑا جلسہ کر کے یہ تاثر دیا کہ ن لیگ مینار پاکستان جیسے جلسے دوسرے شہروں میں بھی کر سکتی ہے…تحریک انصاف اور ن لیگ کے جلسوں کے بعد نمبر ون جلسوں کی بحث میڈیا کا موضوع بنی ہوئی ہے۔اخبارات جلسوں کے شرکاء کی تعداد کے اندازے لگا رہے ہیں۔ بعض صحافی دوستوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اگر باؤنسر کرایا تو میاں نواز شریف نے اس پر چھکا مار دیا ہے اور بعض عمران کے جلسے کو پانی پت کی تیسری لڑائی کا نام دے رہے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ بڑے جلسے کرلینا اور بات ہے جبکہ انتخابی سیاست بالکل مختلف بات ہے، ضروری نہیں کہ جو لوگ جلسوں میں آئیں وہ ووٹ بھی اسی پارٹی کو دیں۔ ہمیں اس بحث میں جانا ہی نہیں چاہئے۔ انتخابات میں صرف چالیس دن باقی ہیں اور اس وقت یہ میدان سب کے کھیلنے کیلئے ایک جیسا ہے۔ اس لئے جلسوں کے تاثرات کا فیصلہ عوام کے سامنے آ جائے گا لیکن ان جلسوں میں جو کچھ کہا گیا اس کے اثرات کیا ہوں گے اور کہے گئے الفاظ یا وعدے ووٹروں پر کتنا اثر انداز ہوتے ہیں یہ زیادہ اہم ہے۔ نواز شریف نے معاشی دھماکے کی بات کی ہے اور پاکستانی موجودہ صورتحال میں یہ الفاظ نہ صرف بڑے معنی رکھتے ہیں بلکہ ان کے اثرات بھی ہوں گے ۔ دوسری طرف عمران خان نے روایتی نعروں سے ہٹ کر بہت ہی مختلف بات کی ہے۔ انہوں نے 23مارچ کے جلسے میں قوم کے سامنے چھ وعدے کئے اور عوام سے چار وعدے لئے۔ ان کے چھ وعدے ہیں کہ 1۔ ہمیشہ قوم سے سچ بولوں گا،2۔پاکستان میں ظلم ختم کرنے کیلئے جہاد کروں گا، 3۔میری دولت کبھی ملک سے باہر ہوگی نہ کبھی پاکستان چھوڑوں گا، 4۔ اقتدار سے خود فائدہ اٹھاؤں گا نہ دوستوں اور رشتہ داروں کو اٹھانے دوں گا، 5۔ قومی دولت کی حفاظت کروں گا،6۔پاکستانیوں کے ساتھ بیرون ملک ہونے والے ظلم پر ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ عمران خان نے اپنے یہ چھ وعدے عوام سے چار وعدوں کے ساتھ مشروط بھی کر دیئے ہیں۔ 1… عوام ظالم کے خلاف میرے ساتھ مل کر جہاد کریں گے،2… بحیثیت قوم ہم نے سچ بولنا ہے،3… عوام کو خوف کے بت توڑنا ہوں گے،4… سب نے تبدیلی کیلئے رضا کار بننا ہے۔
دیکھا جائے تو آج کے معاشرے میں سب سے زیادہ کمی اخلاقیات کی ہے ۔ مادہ پرستی، خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور ہے۔ ایسے دور میں یہ وعدے محض خام خیالی ہی ہو سکتے ہیں ان کو تصوراتی اہمیت سے زیادہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ بھلا کون چاہے گا کہ سچ بولا جائے جبکہ معاشرے میں جھوٹ کا بول بالا ہو اور ظلم کے خلاف جہاد کیلئے کس میں جرأت ہے۔ ان چھ وعدوں کے بعد یار دوستوں نے تبصرے کئے کہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی کے مصداق یہ وعدے ہیں اور عمران خان تو الیکشن کے بعد بری ہو جائیں گے ۔ ابھی یہ چھ اور 4وعدے زیر بحث ہی تھے کہ دو دن بعد عمران خان نے ساتواں وعدہ بھی کر ڈالا کہ ”عوام اور ملک کو امریکی غلامی سے نجات دلاؤں گا“۔ اس وعدے کے بعد تو ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اب تو عمران خان الیکشن نہیں جیت سکیں گے کیونکہ یہاں تو یہ بھی تصور ہے کہ پاکستان ” اپنے آقاامریکہ “ کی مرضی کے بغیرسانس بھی نہیں لے سکتا تو عمران خان جو امریکہ کی غلامی سے پاکستان کو نجات دلانے کی بات کر رہے ہیں، انہیں کیسے جیتنے دیا جائے گا لیکن اس پاکستانی قوم کو میں اپنے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہنے جا رہا ہوں کہ آپ عمران خان سے ہزار اختلاف رکھتے ہوں، ان کے مزاج کو نہ پسند کرتے ہوں، ان کے ماضی کے حوالے سے قصوں کو اچھالیں لیکن ایک شخص جو صدق دل سے یہ اعلان کرتا ہے کہ میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، میں اسی کی عبادت کرتا ہوں اور مدد بھی اسی سے چاہتا ہوں تو پھر ہم سب کا بھی خدا پر یقین ہونا چاہئے کہ ذات باری تعالیٰ ایسے لوگوں کیلئے نہ صرف آسانیاں پیدا کرتی ہے بلکہ مدد بھی فرماتی ہے۔ اس لئے ہمیں بحیثیت قوم امریکی غلامی سے نجات کیلئے نہ صرف عہد کرنا چاہئے بلکہ عمران خان اور اسی طرح کی سوچ رکھنے والی جماعتوں کو بھرپور سپورٹ بھی کرنا چاہئے اور ان سب جماعتوں کو مل کر چلنے کے بعد اور نئے پاکستان کی تعمیر کیلئے تاریخ میں اپنا نام رقم کرانا چاہئے۔ میں آخر میں عمران خان نے اپنے والد محترم کے بارے میں جو انکشاف کیا ہے وہ دہراؤں گا کہ میرے والد نے 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں قائداعظم  کی تقریر سنی تھی اس وقت ان کی عمر19سال تھی، وہ ہمیں بتاتے تھے اور آج کے نوجوان اپنی آئندہ نسل کو بتائیں گے کہ نئے پاکستان کی تعمیر کی قرارداد میں وہ بھی شریک تھے۔ میں تو بس یہ کہوں گا کہ ساتوں وعدوں کی تکمیل صرف اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان اور یقین کی صورت میں ممکن ہے ۔ اسی میں نئے پاکستان کی تعمیر کا راز مضمر ہے۔
تازہ ترین