• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا ابھی ایک ایسے جرثومےکی تباہ کاریوں سے نمٹتے نمٹتے ہلکان ہےجسے انسانی آنکھ سےدیکھنا ناممکن ہے،کہ اب ایک چھوٹے سے حشرے نے اس کے رہے سہے ہوش بھی اڑادیے ہیں۔کرونا وائرس اگر پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور سازشی نظریے کے تحت اس کا تعلق فائیو جی ٹیکنالوجی سے جوڑا جارہا ہے تو اجی یہ حشرہ بھی شاید فورجی ٹیکنالوجی کا حامل دکھائی دیتا ہے،کیوں کہ اس کی رفتار بھی مانندِ برق محسوس ہوتی ہے۔یہ دو گرام وزنی اور تقریبا تین انچ کی جسامت والا جان دار روزانہ ایک سو بیس سے دو سو کلومیٹرز تک کافاصلہ طے کرسکتا ہے اور وہ بھی اکیلے نہیں بلکہ لاکھوں ہم نفسوں کے ساتھ،یعنی ایک بہت بڑی فوج یا دَل کے ساتھ۔اسی لیے عموما اسے صیغہ واحد کے ساتھ یعنی،’’ ٹِڈّی‘‘ کےبجائے صیغہ جمع کے ساتھ،یعنی ’’ٹِڈّی دَل‘‘ کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔

زرعی ماہرین کے مطابق یہ ڈیزرٹ ہُوپرنسل کی ٹِڈّیاں ہیں جو طویل فاصلے تک اڑ سکتی ہیں۔جُھنڈ میں ان کا رویہ بہت جارحانہ ہوتا ہے۔کچھ عرصہ قبل افریقی ممالک میں ان کے پھیلنے کی خبریں سرخیوں میں تھیں۔یاد رہے کہ2017میں بولیویا کی حکومت کو ایک بڑے زرعی علاقے میں ان کے حملے کی وجہ سے ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ٹِڈّی کی یہ نسل صرف جنوبی ایشیائی ممالک، جیسے بھارت اور پاکستان میں اپنے دَل کےساتھ فصلوں کا صفایا کرنے کے لیے معروف ہے ۔ برطانیہ کے فوڈ اینڈ انوائرنمنٹ انسٹی ٹیوٹ، یعنی فیرا،نے اس حشرےپر ایک تحقیق کی جس سے پتا چلاہےکہ ٹِڈّیوں کی کھانے کی صلاحیت اور رفتار مویشیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ اپنے وزن کے لحاظ سےکہیں زیادہ وزنی جانوروں کی نسبت آٹھ گنا تیز رفتار سے سبز چارہ کھا سکتی ہیں۔

ہم بہت دیر سے جاگے

اگرچہ یہ مسئلہ نیا نہیں ہے ،لیکن ہم نے جس طرح اس سے نمٹنے میں کوتاہی برتی اس نے اسے بہت سنگین بنادیا ہے۔یہ حشرہ گزشتہ برس کے اوائل میں ہمارے ملک میں بِن بلائے مہمان کے طور پر معہ اہل وعیال آیاتھا۔ماہرین زراعت و حشرات نے اسی وقت اس خطرے سے فوری طورپر نمٹنے کے لیےجنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے پر زور دیاتھا،لیکن ہم نے اپنی مجموعی قومی نفسیات کے مطابق اسے خوب بڑھنے دیا۔پھر آٹھ دس ماہ بعد جب یہ حشرہ عفریت بن گیا تو ہم خوابِ خرگوش سے جاگے اور اس بارے میں ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا۔لیکن اس اعلان کے بعد بھی اس ضمن میں ہماراردعمل بہت سست تھا۔

سندھ کے وزیر کی قلابازیاں

نومبر 2019کے دوسرے ہفتے میں کراچی پر بھی ٹِڈّی دَل نے حملہ کیا تھا۔اس سے قبل صوبے کے مختلف مقامات پر ان کے حملے ہوچکے تھےجن سے فصلوں کو کافی نقصان پہنچا تھا۔مگر اس وقت حکومتِ سندھ کا کہنا تھاکہ اس مرتبہ ٹِڈّی کے حملے سے شہریوں یا فصلوںکو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔سونے پر سہاگے کے مترادف اس وقت سندھ کے وزیرِ خوراک اسماعیل راہونے شہریوں کو یہ مشورہ دیاتھا کہ ٹِڈّیوں سے گھبرانا نہیں ہے بلکہ اگر چاہیں تو انہیں کھا سکتے ہیں۔

ایک وڈیو بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ٹِڈّی دَل ہجرت کی پوزیشن میں ہے۔ دھوپ نکلتی ہے تو اُڑ کر دوسری جگہ نکل جاتا ہے۔ مختلف جگہوں پر ہماری ٹیمیں نکلی ہوئی ہیں ،مگر کل یہ جس جگہ پر تھیں وہاں آج نہیں ہیں۔یہ شہریوں کو نقصان نہیں پہنچاتیں ،البتہ اگر شہری چاہیں تو انہیں پکا کر کھا سکتے ہیں۔

لیکن یکم مئی 2020کو ان ہی وزیر موصوف کو اس بارے میں ایسا جھٹکا لگا کہ انہیں ایسا بیان دینا پڑا جس سے پورے ملک کے عوام ہل گئے۔پہلے ا سے ہلکا لینے والے اسماعیل راہواب کے باریوںگویا ہوئے: ’’ٹِڈّی دَل کرونا سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا اور اس سے ملک قحط کی لپیٹ میں آجائے گا ۔ اس کی وجہ سے سندھ کی فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ 

وفاق کرونا کی طرح ٹِڈّی دَل کو بھی ہلکا لے رہا ہے اوراس معاملے پر سندھ کی کوئی مدد نہیں کررہا ۔ سندھ سمیت پورے ملک کی زراعت کو اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔اس کا خاتمہ فضائی اسپرے ہی سے ممکن ہے۔یہ سندھ میں کھڑی فصلوں کو کافی نقصان پہنچا چکے ہیں اور پنجاب کے بھی کئی اضلاع متاثر ہوئے ہیں‘‘۔

اسی روز مذکورہ وزیر موصوف کا یہ بھی فرمانا تھا کہ ٹِڈّی دَل بھارت اور ایران سے بلوچستان اور اب سندھ میں داخل ہوچکا ہے۔ وفاق کو ایک سال سے خطرے سے آگاہ کررہے ہیں۔ پاکستان کی ساٹھ فی صد دیہی آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔

بے قابو صورت حال

آج سندھ سمیت ملک بھر میں ٹِڈّی دَل کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔اس مسئلے سے بھی نمٹنے کے لیے چین پاکستان کی مدد کررہا ہے،لیکن اس کے باوجودٹِڈّی دَل بے قابو ہے،کیوں کہ ہم بہت سا قیمتی وقت گنواچکے ہیں۔خیال رہے کہ اس برس سترہ اپریل کو وزیراعظم کی زیرِصدارت ایک اہم اجلاس ہوا تھا۔ اس موقعے پر عمران خان نے کروناوائرس کے بعد ٹِڈّی دَل کو ملک کا اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ اس پر قابو پانے اور خاتمے کے لیےمکمل تیاری کی جائے اور اس ضمن میں حائل ہر قسم کی رکاوٹ اور مشکلات فوری دور کی جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹِڈّی دَل کےضمن میں ملک میں پہلے ہی ایمرجنسی نافذ ہے، اب مزید اقدامات کیے جائیں تاکہ فصلوں کے دشمن کے حملوں کو روکا جاسکے۔

مذکورہ اجلاس میں شرکاکو ٹِڈّی دَل کے خاتمے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا تھاکہ اس ضمن میںچین سے جہاز اورمشینری منگوائی گئیں ۔تاہم کروناکی وبا کی وجہ سےمشینری کا حصول سست روی کا شکار ہوا۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کرونا کی وباگزشتہ برس کے انتہائی آخر میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور ٹِڈّی دَل کے حملے گزشتہ برس کے اوائل ہی سے رپورٹ ہونےلگے تھے۔

خود متعلقہ سرکاری ادارے اس بارے میںمارچ2019سے آگاہ تھے۔اس ضمن میں گیارہ نومبر 2019کو وزارتِ تحفظ خوراک اور تحقیق ،کے شعبہ تحفظ نباتات کا کہنا تھا:’’ ملیر اور اس کےقُرب و جوار کے علاقوں میں میں ٹِڈّی دَل کے جُھنڈ کی آمد مون سون میں افزائشِ نسل کے گرم علاقوں سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی جانب ہجرت کا حصہ تھی اور اس سے خوراک کو کوئی خطرہ نہیں‘‘۔

اس بارے میں تحفظ نباتات کےتیکنیکی ناظم محمد طارق خان کا کہنا تھا :’’ صحرائی ٹِڈّی دَل دن میں پروازکرتے اور رات کے وقت قیام کرتے ہیںاور ہجرت کے عمل سے عام طور پر نقصان نہیں ہوتا کیو ں کہ اس دوران یہ خوراک کی تلاش میں نہیں ہوتے۔صحرائی ٹِڈّی دَل صحرائی علاقوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ریتیلی مٹی، نمی اور سبزہ ہو تاکہ وہ افزائش نسل کر سکیں ۔ 

پاکستان میں صحرا ئی ٹِڈّی دَل کی افزائشِ نسل کےدو موسم اور علاقے ہیں۔موسمِ سرما اور موسمِ بہار کی افزائشِ نسل بلوچستان کے صحرائی علاقوں میں فروری تا جون جاری رہتی ہے۔دوسری جانب موسمِ گرماکی افزائشِ نسل تھرپارکر، نارا اور چولستان کے صحرائی علاقوں میں جون تا نومبر ہوتی ہے‘‘۔

گیارہ نومبر 2019ہی کو شایع ہونے والی ا یک خبر میں بتایا گیا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے مارچ 2019 سے اب تک 5لاکھ50ہزارایکڑ زمین کا سروے اورپنجاب، بلوچستان اور سندھ میں ایک لاکھ 10 ہزار ایکڑ زمین کو زمینی اور فضائی اسپرے کے ذریعے محفوظ کیا جاچکا ہے۔ احتیاطی تدابیر کی وجہ سے ٹِڈّی دَل کی سرگرمیاں صحرائی علاقوں تک محدود رہیں اور وہ زیرِ کاشت علاقوں پر حملہ نہیں کرسکے۔

اس خبر سے پتا چلتا ہےکہ متعلقہ سرکاری ادارے مارچ 2019 سے اس بارے میں آگاہ تھے،لیکن وہ زمینی حقایق اور ٹِڈّی دَل کے بارے میں مسلّمہ نظریات سے نظریں چرارہے تھے۔حالاں کہ ماہرین اس وقت ہی اس بڑھتے ہوئے خطرے کی نشان دہی کرچکے تھے۔

اس امر کی تصدیق چھبّیس جون 2019کی ایک خبر کرتی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ سندھ کے علاقے دادو، مٹیاری اور خیرپور میں ٹِڈّیوں کے حملے سے سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل تباہ ہو گئی ہے۔ ٹِڈّی دَل کے حملے نے پہلے سے مشکلات کے شکار کاشت کاروں کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔حکومتِ سندھ نے کاشت کاروں کو مزید نقصانات سے بچانے کے لیے چیف سیکریٹری سندھ کے دفتر میں کنٹرول روم قائم کردیا ہے۔

مذکورہ خبر میں کہا گیا تھا کہ تیس برس بعد ہونے والے اس حملے سے دادو کے علاقے کاچھو اور رادن میں سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہوگئی ہے۔ڈپٹی کمشنر پرویز احمد بلوچ نے ضلعےکے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور نقصانات کا جائزہ لیا۔ چیف سیکریٹری سندھ کی صدارت میں کراچی میں اجلاس ہوا جس میں ٹِڈّی دَل کے حملے سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

اس سب کے باوجود ہم نہیں جاگے ۔لیکن چار نومبر 2019کواقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) نے خدشہ ظاہر کردیا تھا کہ پاکستان میں ٹِڈّی دَل کی موجودہ صورت حال نہایت سنگین ہوسکتی ہے۔ایف اے او کی ٹِڈّی دَل کی نگرانی سے متعلق رپورٹ میں خدشات کا اظہار کیا گیاتھا کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ٹِڈّی دَل کا آغاز ستمبر کے آخر سے ہوسکتاہے۔رپورٹ میں کہاگیاتھا کہ یمن اور بھارت میں بھی اسی طرح کی صورت حال ہے اور ایتھوپیا اور اریٹریا میں صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے ۔ اگست کے مہینے میں ٹِڈّیاں چولستان، نارا اور تھرپارکر کے صحراؤں میں انڈے دیتی ہیں جہاں بھارتی سرحد کے قریب ٹِڈّیوں کا جُھنڈ بنتا ہے۔اگست کے وسط کے بعد سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اوریہ کراچی کے مغربی علاقے لسبیلہ میںجُھنڈ کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔

اس وقت یہ اطلاعات تھیں کہ اگست میں تقریباً 86 ہزار ہیکٹرز زمین پر ٹِڈّیاں پیدا ہوئیں جن میں سے 16 ہزار 455 ہیکٹر زمین پاکستان کی ہے۔ان کی افزائشِ نسل چولستان اور تھرپارکر کے صحراؤں میں جاری ہے جہاں ستمبر کے آخر تک ایک اور نسل جُھنڈ کی شکل اختیار کر لے گی۔

ان ہی دنوں یہ خبر بھی آئی تھی کہ ایف اے او نے وفاقی پلانٹ پروٹیکشن اینڈ ایگری کلچر ڈپا رٹمنٹ آف پنجاب کی شراکت سے تربیتی پروگرام مکمل کیاتھاتاکہ سرکاری افسران اور تیکنیکی اسٹاف کو پاکستان میں ٹِڈّی دَل کے حملے کے لیے تیار رکھا جائے۔بہاول پور کے علاقے میں پانچ سو کسانوں نے ورک شاپ میں حصہ لیاتھا جہاں صحرائی ٹِڈّیوں کی تعداد میں اضافے اور ان کی مختلف اقسام کے بارے میں آگاہی دی گئی تھی۔

اب ہمارے جاگنے کی باری تھی

اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت تو ہم سے پہلے کارروائیاں شروع کرچکا تھا، لیکن ہمارے جاگنے کی باری بائیس نومبر 2019کو آئی۔اس روز وزارتِ برائے تحفظ خوراک اور تحقیق نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں صحرائی ٹِڈّی دَل پر قابو پانے کے لیےپچاس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک لاکھ ٹن کیڑے مار دوا بھی درآمد کی جائے گی۔ سیکریٹری برائے وزارتِ تحفظ خوراک اور تحقیق ہاشم پوپل زئی نے قائمہ کمیٹی کو وفاقی حکومت کی جانب سے دونوں صوبوں میں ٹِڈّی دَل پر قابو پانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیاتھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں ٹِڈّی دَل کی بڑی تعداد موجود تھی وہاں فضائی اسپرے کے لیے طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ ٹِڈّیوں نے متاثرہ علاقوں میں انڈے دیے تھے اوردو سے تین برس وہاں ان کے لاروا موجود رہنے کا امکان ہے۔شعبہ تحفظ نباتات کی کنٹرول ٹیموں نے ایک لاکھ31ہزار ایک سو ہیکڑ رقبے پر پھیلے علاقے کو کلیئر کیا ہے، جس میں سے سندھ اور بلوچستان میں 5 ہزار ہیکڑ علاقے کو اب تک ایک لاکھ 15 ہزار 4 سو 55 لیٹر کیڑے مار ادویات کے فضائی اسپرے سے کلیئر کیا گیا۔ 

تمام متاثرہ علاقوں میں ٹِڈّی دَل پر قابو پانے سے متعلق آپریشن جاری ہے۔لیکن ہاشم پوپل زئی کا بیان بتا رہا تھا کہ اس وقت بھی بیش تر باتیں مستقبل کے صیغے میں کی گئی تھیں ۔ اور جن سرگرمیوں کے ہوچکنے کا انہوں نے ذکر کیا تھا وہ بعد میں کتنی موثر ثابت ہوئیںاس کا اندازہ بعد میںپیدا ہونے والی صورت حال سے لگایا جاسکتا ہے۔

ہنگامی حالت کا اعلان ہوتا ہے

بالآخر ہاشم پوپل زئی کی باتیں ’’بہار کی باتیں‘‘ ثابت ہوئیں اور حالات اتنے بگڑے کہ اکتّیس جنوری 2020کو وفاقی حکومت کوٹِڈّی دَل کےحملے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کا فیصلہ کرنا پرا تھا۔اس روز یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا جس میں وفاقی وزیرِبرائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی، مخدوم خسرو بختیار، وفاقی مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان، چیئرمین این ڈی ایم اے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سینئر افسران نے شرکت کی تھی۔اس اجلاس میں وزیرِ اعظم کو ملک کے مختلف حصوں میں ٹڈی دل کےحملے کے خطرے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی۔

مذکورہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھاکہ ٹِڈّی دَل کے تدارک کے لیے وفاقی سطح پر اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی جائے گی۔کمیٹی کا چیئرمین، وزارتِ تحفظِ خوراک کو نام زد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ٹِڈّی دَل کے خاتمے کے لیے ایکشن پلان بھی منظور کیا گیا تھا۔چیئرمین این ڈی ایم اے کوٹِڈّی دَل کے خاتمے کے حوالے سے فوکل پرسن تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیاتھا۔ ایکشن پلان میں این ڈی ایم اے اور وفاقی و صوبائی محکموں کی تمام ذمے داریوں کا بھی تعین کیا گیاتھا۔

دوسری جانب اسی روز ملک کے اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ٹِڈّیاں بڑے پیمانے پر فصلیں تباہ کر رہی ہیں جس سے خوراک کی قلت ہونےکے خدشات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔یہ ٹِڈّیاں جون میں ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوئی تھیں اور پہلے ہی جنوب مغربی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فصلوں کو تباہ کر چکی ہیں۔ 

ان علاقوں میں سب سے زیادہ کپاس، گندم اور مکئی کی فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔پاکستان میں یہ جنوبی صوبے سندھ سے سفر کرتی ہوئیں شمال مغربی صوبے خیبرپختون خوا تک پہنچ چکی ہیں۔ ٹڈیوں کے لیے مناسب موسم کی وجہ سے اور حکام کی جانب سے ردعمل میں تاخیر کے باعث ان کی تعداد اور متاثرہ علاقوں میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات، فردوس عاشق اعوا ن کا کہنا تھا کہ ہمیں دو عشروں کے دوران ٹڈی دل کی بدترین افزائش کا سامنا ہے اور اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ہم نے قومی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔اس سے قبل مخدوم خسرو بختیار کا قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ ٹڈیوں کا حملہ بے مثال اور انتہائی قابل تشویش ہے۔مقامی حکام اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس وسائل محدود ہیں۔

یہ کیسی بلا ہے؟

ایک بالغ صحرائی ٹِڈّی کتنی دو گرام خوراک کھا سکتی ہے، یعنی اپنے وزن کے برابر۔ ایک مربع کلومیٹر پر پھیلا ٹِڈّی دل 35 ہزار افراد،بیس اونٹوں یا چھ ہاتھیوں کی خوراک کے برابر کھا سکتا ہے۔اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادار ے کے ایک محقق ژینس لائرکے مطابق ٹِڈّیوں کا ایک چھوٹا گروپ پینتیس ہزار انسانوں کی خوراک ایک دن میں چٹ کر جاتا ہے۔ 

پاکستان میں ٹِڈّیوں کی افزائش نسل کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔ ایک مادہ ٹڈی ریت میں انڈے دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹِڈّیاں اڑنے والے حشرات میں سب سے تیز رفتار ہوتی ہیں۔ یہ روزانہ ایک سو سے دو سو کلومیٹر تک کا سفر کر سکتی ہیں۔

ٹِڈّیوں کےجُھنڈ بعض اوقات بہت بڑے ہوسکتے ہیں۔ کسی دن ان میں دس ارب سے زیادہ ٹِڈّیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں اور یہ سیکڑوں کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ یہ دَل دیہی زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں جہاں یہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے ہر شے کھانا شروع کر دیتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت اور خوراک (ایف اے او) کے مطابق،ایک اوسط درجے کا جُھنڈ اتنی فصلیں تباہ کر سکتا ہے جتنی ڈھائی ہزار افراد کی ایک برس کی ضروریات کے لیے کافی ہو سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق،2003میں شروع ہونے والےٹِڈّیوں کے حملے میں جو دو برس تک جاری رہا، صرف مغربی افریقا میں ڈھائی ارب ڈالرز مالیت کی فصلیں تباہ ہوئی تھیں۔تاہم انیس سو تیس، چالیس اور پھر پچاس کی دہائیوں میں بھی بہت بڑی تباہی والے ٹِڈّیوں کے حملوں کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ ان میں ٹِڈّیوں کے کچھ جُھنڈ تو کئی علاقوں میں پھیل گئےتھے جس کی وجہ سے انہیں وبا قرار دینے کی ضرورت سمجھی گئی۔ مجموعی طور پر ایف اے او کے مطابق کرہ ارض پر ہر دس افراد میں سے ایک فرد کی زندگی ان ٹِڈّیوں سے متاثر ہوتی ہے۔اس وجہ سے یہ دنیا میں منتقل ہونے والی بدترین وبا قرار دی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق چند دہائیوں میں دنیا بھر میں ٹِڈّی دل کے حملوں میں کمی آئی ہے۔یاد رہے کہ کمی اُس دورکوکہیں گے جب ٹِڈّیوں کی افزائش کم تعداد میں ہوتی ہے۔اضافے سے مراد وہ دورہوتاہے جب ان کی افزائش کثیر تعداد میں ہوتی ہے۔وبائی کیفیت اس وقت قرار دی جاتی ہے جب ٹِڈّی دل کے حملے ایک برس سے زیادہ عرصے تک جاری رہتے ہیں۔جب وبائی کیفیت اختتام تک پہنچتی ہے تو اس دور کوزوال کہا جاتا ہے۔

تازہ ترین