• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نظریات کے بغیر سیاست ایسی ہے جیسے جسم سے روح کو علیحدہ کر دیا جائے اور یہ ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ ہم جہاں اور بہت کچھ کھو چکے ہیں، وہاں ملک میں اب نظریاتی سیاست بھی ناپید ہو چکی ہے۔ نظریات کسی مقصد، ہدف، خدمت کیلئے وہ رہنما اصول متعین کرتے ہیں جن کی روشنی میں جدوجہد کی جاتی ہے اور جو کسی نظام پر منتج ہوتے ہیں۔ راہ طلب میں حکمت، مصلحت ومصالحت سے مدد ضرور لی جاتی ہے لیکن نظریات کو مجروح کرنے والی کسی وقتی کامیابی تک کو قبول نہیں کیا جاتا۔
نظریات فی نفسہ مقصد نہیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کا وہ ابجد ہے جنہیں انسان سالہا سال سے دریافت کرتا چلا آرہا ہے اور یہ عمل جاری رہنے والا ہے۔ علمی مشاہدے اور تجرباتِ زمانہ بعض نظریات کو تحلیل، کچھ میں ترمیم اور اکثر میں ردوبدل کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہر عہد میں علمی نظریات کو رد کرنے کے سلسلے میں علمی نظریات نے جنم لیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب جب فزکس کے عظیم ترین نظریات بھی تبدیل ہوتے جا رہے ہیں تو پھر نظام مملکت سے متعلق نظریات گردش ایام کے ساتھ جامد وساکت کیسے رہ سکتے ہیں!! کوئی نظام خواہ کتنا ہی مکمل کیوں نہ ہو، وہ تغیر پذیر بھی ہو سکتا ہے کہ تغیر ہی تکمیل کی پہلی منزل ہے۔ عدم تغیر صرف ”موت“ ہی کا نام ہو سکتا ہے لیکن جہاں اصل سیاسی نظریات متروک ہو جائیں اور ان میں تغیر وتبدل کے نام پر ابن الوقت عناصر وہ تماشے برپا کر دیں کہ ہر نوع کے نظریات شرمسار منہ چھپاتے رہ جائیں یا موقع پرستوں کی کارستانیوں سے ایسے نظریات خود کو پہچاننے سے انکاری بن جائیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مملکت کی سیاست کا حال اس شعر کے حسب حال کے ماسوا اور کیا ہو سکتا ہے
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
وطن عزیز میں ہم جیسے ”تصور پرست“ اس پر ماتم کناں نہیں کہ یہاں مارکس ماؤ لینن کے نظریات سے شرمناک کھیل کھیلا گیا بلکہ نوحہ یوں رواں ہے کہ یہاں قرآنی نظریات کو بھی حقیقی روح کے مطابق زندگی کا حصہ بنانے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی، مارکس ازم، ماؤ ازم، سیکولر ازم لبرل ازم اور جمہوری نظریات سے کھیل کرخواہ کسی نے کتنا ہی ”باذوق“ ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہو وہ رو رعایت کے مستحق اور قابل گرفت یوں نہیں کہ چلئے انسان نے اپنی ہی انسانی نظریات کو توڑ مروڑ لیا، مسخ و پامال کیا یا اس کے جامے تلے اپنے ہوس وحسرت کے عشرت کدے آباد کئے رکھے لیکن اسلامی نظریات کو جس طرح ”حلوے“ کی طرح حلق سے گزار کر ہضم کر لیا جاتا ہے وہ ایسا ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزا ہر صورت اہل ایمان کے ہاں متعین ومقرر ہے اور جو ہر دو جہاں یا کسی ایک جہاں میں ملنا ناگزیر ہے۔ پاکستان میں نظریات کو بطور لبادہ تو استعمال کیا گیا لیکن اس کی عملی تعبیر کیلئے اس لئے کوششیں بروئے کار نہ لائی گئیں کہ اسلام کے نفاذ سے ذاتی مفادات پر ضرب پڑتی اس لئے اسلام کی حیثیت محض سلوگن کی رہی جبکہ مارکسی نظریات کے مطابق قدر زائد کے مالک عوام ہوتے۔ یوں ان دونوں نظاموں میں طبقات کا تصور تک مفقود ہوتا۔ اسلام میں دولت خدائے بزرگ وبرتر کا فضل ضرور ہے لیکن آمدورفت کا حساب باقاعدہ رکھنا پڑتا ہے جبکہ وطن عزیز میں استحصال پر مبنی نظام کی جڑیں ہی اس احتساب سے عاری عملیات پر استوار ہیں۔
ہم اس بحث میں نام نہاد انقلابیوں، اشتراکیوں، ترقی پسندوں کے گرد حفاظتی فصیل بنا کر ان کے گناہ بے لذت کو پردہ اخفا میں رکھنے کیلئے کسی علم وفن کا سہارا نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ پامال ہوتی نظریاتی سیاست کا ”ثمر“ انہیں اجروخیر کی صورت میں ملے اور پھر وہ خود بھی کسی نقاب تلے چھپنے کے کبھی روادار بھی نہیں رہے کہ ہمیشہ مذہب بیزار سیاست پر فخر کرتے، عوام کو اپنے طرز سیاست سے نالاں بناتے رہے۔ یہ نظریات کے خول میں نظریاتی سیاست کے وہ دوست نما دشمن تھے جو معروضی صورتحال اور سماج کے انگ وآہنگ کی تطہیر بے کیف رنگ وسنگ سے کرنے کے خواہاں ڈرائنگ روموں میں انقلاب برپا کرتے رہے تاہم اگر وہ کسی نبض شناس نظریاتی انقلابی کی طرح نیم خواندہ جاگیردارانہ سماج، قنوطیت زدہ قبائلی معاشرے کی اصلاح بذریعہ تعلیم وتربیت کرتے تو پاکستان کے چار سو پھیلے ترقی وتغیر کے بادل برستے ہوئے اس زرخیز مٹی کو سونا بنا دیتے لیکن ہمارے ”نظریاتی گرو“ اس قابل ہی نہ تھے، نعرے ان کا سہارا، بیرونی چھتری ان کا سائبان اور آغوش میں ساغرومینا سے مشاغل ان کے معمولات تھے لہٰذا تبدیلی کیسے آتی!! اور اس طرح کے پیش کردہ آلودہ نظریات کیونکر عوام کے دل ودماغ میں مسکن بنا پاتے۔ بلاشبہ ایک معقول تعداد ایسے نظریاتی اصحاب فکرونظر کی تھی اور اب بھی ہے جو اپنے آپ سے زیادہ وطن و نظریات سے نبھا میں مصروف تھے لیکن نام نہاد انقلابیوں کے کرتوت ان کی شفاف سیاست کو بھی داغدار بنا گئے۔ روس، چین ودیگر ممالک میں مذہب وسیاست جدا جدا ضرور ہے لیکن ان ممالک میں مذہب کی تحقیر کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن ہمارے ہاں کے انقلابی مستعار شدہ نظریات میں اتنے آگے چلے گئے کہ 99 فیصد مسلمانوں کے ملک میں مذہب کے مذاق اڑانے کو وتیرہ بنا لیا گیا۔ اشتراکیت، ترقی پسندی وسیکولر ازم ایسے عناصر کے ردعمل میں لادینیت قرار دیئے گئے اور ان کے داعی دائرہ اسلام سے خارج، ایسے ملحد جن کا خدا تک پر ایقان نہ ہو، سامراج اور ان کے پاکستانی آلہ کاروں نے ان کمزوریوں سے جو یا تو انہی سامراج پرور قوتوں کی پیدا کردہ تھیں یا خود رو، فائدہ اٹھایا اور یوں یہ حقیقی نظریات کے آگے پل باندھنے میں سرخرو ٹھہرے اور خالص نظریات کے حاملین بھی مار و مات کھا گئے یا گوشہ نشین ہو گئے اور یوں نظریات کے تمام اجزائے ترکیبی بھی رفتہ رفتہ بکھرنے لگے جن میں انقلابی ادب کے میدان کا ماند پڑ جانا، ٹریڈ یونین کا خاتمہ، طلبہ تحریک کا طبقاتی نظام تعلیم کے پیروں تلے کچلے جانا، کسان انجمنوں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا، وکلاء، اساتذہ و دانشوروں کی تنظیموں کو موقع پرستی کا زنگ لگ جانا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بنابریں معروضی حالات میں جن ترقی پسند نظریات کا شوروغوغا ہے وہ نظریات نہیں کھوکھلے کھوکے ہیں۔
دوسری طرف آفاقی اسلامی نظریئے کا حشر مملکت خداداد پاکستان میں جو ہوا دنیا کے مسلمانوں کے کسی ملک میں شاید ہی اس کی مثال مل جائے۔ اسلامی نظریئے کا جس طرح ہماری مذہبی جماعتوں نے استحصال کیا شاید اس کی تاب غیرمسلم بھی نہ لا پاتے اور تو اور یہاں جہاد جیسے اسلامی عمل کو بھی امریکی ڈالر واسلحے سے داغدار کر دیا گیا جہاد کے داعی خود گھروں میں بیٹھے مال غنیمت سمیٹتے رہے اور مدرسوں کے نوعمر طالبان کو بم وبارود کے حوالے کیا ایم ایم اے نے قرآن مجید کے نام پر ووٹ حاصل کئے اور اقتدار پانے کے بعد من وسلویٰ پر یوں باہم دست گریبان ہو گئے کہ قاضی حسین احمد صاحب نے جے یو آئی کو حلق کی ایسی ہڈی قرار دیا جو نہ اگلی جا سکے اور نہ نگلی جا سکے جبکہ مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کوالکحل سے کیا خوب تشبیہ دی۔ دفاع پاکستان کونسل میں42 مذہبی جماعتیں، ملی یکجہتی کونسل میں 26 مذہبی جماعتیں ہیں جب یہ جماعتیں باہم مدغم ہو کر ایک جماعت نہیں بن سکتیں تو یہ پاکستانی مسلمانوں کو ایک کس طرح کر پائیں گی، اس سے قرآن وسنت پر مبنی نظریئے سے ان کے اخلاص کا بخوبی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا! اب جب سیاسی جماعتیں وقائدین کسی نظریئے پر کاربند ہی نہ ہوں تو یہ توقع کیونکر کی جا سکتی ہے کہ کوئی ایسا نظامِ مملکت بروئے کار آجائے گا جو کسی اصول، ضابطے قاعدے یا دستور کا پابند ہو گا آج کا سوال یہ ہے کہ کیا صدر آصف زرداری، میاں نواز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن بتا سکتے ہیں کہ ان کا نظریہ آخر ہے کیا!!
تازہ ترین