• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہی ہوا جس کا ڈر تھا، میرا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا، گزشتہ چند دنوں سے پیدا ہونے والی جسمانی علامات کے بعد میں نے کورونا کا ٹیسٹ کرایا تھا، ایک جذباتی صدمے اور انجانے خوف نے میرا حوصلہ توڑ دیا۔

نجانے کس طرح کورونا وائرس مجھ میں منتقل ہوا، میں نے تو کورونا وبا کی شروعات سے ہی کافی احتیاط برتی تھی لیکن یہ بیماری مجھ تک پہنچ ہی گئی۔

اب مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ اسپتال منتقل ہونا ہے یا گھر میں ہی قرنطینہ میں رہ کر اس مشکل کا مقابلہ کرنا ہے اور پھر میں نے گھر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

میں نے اپنے آپ کو حوصلہ دیا کہ میں تو خود امراضِ قلب کا ریٹائرڈ ڈاکٹر ہوں۔ خود ایک مسیحا ہوں زندگی بھر لوگوں کی جانیں بچائی ہیں، اس مشکل بیماری سے ضرور خود کو بچالوں گا لیکن یہ کورونا وائرس تو مجھ سے بھی طاقتور نکلا، اس نے اگلے سات دنوں میں مجھے زیر کر لیا۔

مجھے اب سانس لینے میں شدید دشواری پیش آرہی تھی، شاید کورونا کا وائرس پوری طرح میرے نظامِ تنفس پر حملہ آور ہو چکا تھا لہٰذا اب وینٹی لیٹر ہی میرا آخری سہارا تھا۔ اہلیہ سے فوری طور پر ایمبولینس بلانے کو کہا، مجھے بات کرنے میں بھی شدید تکلیف محسوس ہورہی تھی۔

کراچی کے چند بڑے اسپتالوں جہاں ٹی وی پر بیٹھے حکمرانوں سے ہی سنا تھا کہ ان اسپتالوں میں کورونا وارڈز ہیں اور وینٹی لیٹرز موجود ہیں، سے رابطے کی کوشش کی تو سب نے ہی یہی جواب دیا کہ اسپتال بھرے ہوئے ہیں، بالکل جگہ نہیں ہے۔ اتنی دیر میں ایمبولینس آچکی تھی، ہمت کرکے ایمبولینس میں منتقل ہوا، ڈرائیور نے پوچھا کہاں جانا ہے، اس کو یہی جواب دیا کہ کسی بڑے اسپتال لے چلو جہاں وینٹی لیٹرز موجود ہوں۔

ڈرائیور بھی سمجھ دار تھا، اس نے پہلے انڈس اسپتال کا رُخ کیا، گلشن سے انڈس اسپتال خاصے فاصلے پر ہے تاہم ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔

میں بھی مطمئن تھا کہ اب جلد ہی وینٹی لیٹر پر منتقل ہو جائوں گا، وہ مجھے ایمبولینس میں چھوڑ کر اسپتال انتظامیہ کے پاس گیا اور خاصی دیر بعد واپس آیا۔ اس نے بتایا کہ اسپتال مکمل طور پر بھرا ہوا ہے، کوئی وینٹی لیٹر بھی خالی نہیں ہے۔

انتظامیہ آپ کو داخل کرنے کو تیار نہیں ہےلہٰذا اب دوسرے بڑے سرکاری اسپتال جائیں گے۔ میرے لیے اب سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔ جناح اسپتال کا رُخ کیا، اس امید پہ کہ ایک دفعہ اسپتال میں داخلہ مل گیا تو وینٹی لیٹر پر علاج شروع ہو سکے گا۔

اب ہم جناح اسپتال پہنچ چکے تھے۔ ایک بار پھر ڈرائیور اسپتال کے اندر گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا کہ اسپتال میں جگہ نہیں ہے نہ ہی کورونا مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں۔ لہٰذا اب سول اسپتال چلیں گے، میرا حوصلہ اب ٹوٹنے لگا تھا۔

میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام حکمران آنے لگے جو پورا پورا دن، کورونا سے مقابلے کے لیے اپنی جھوٹی کہانیاں ٹی وی پر سناتے نظر آتے تھے۔ اس ملک میں کورونا سے نمٹنے کے لیے 12سو ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جارہی تھی، کروڑوں روپے کے وینٹی لیٹرز خریدنے کے قصے سنائے جارہے تھے۔

صوبے وفاق پر اور وفاق صوبوں پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ وزراء روز شام کو اپنی جھوٹی کارکردگی کی کہانیاں سناتے ہیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ ساری زندگی لوگوں کی زندگیاں بچانے والا مسیحا اپنی جان بچانے کے لیے کراچی کی سڑکوں پر لاوارث پھر رہا تھا اور کوئی اس کا پُرسان حال نہ تھا۔

اب میں ہوش کھوتا جارہا تھا، نجانے میرے ساتھ کیا ہورہا تھا۔ پھر مجھے ڈرائیور کی آواز آئی۔ صاحب ہمیں واپس گھر ہی جانا پڑے گا، ڈرائیور کے الفاظ سن کر میری آنکھوں سے چند قطرے بےبسی کا ماتم کرتے ہوئے بہہ نکلے، اب میں حوصلہ ہار چکا تھا، میری آنکھیں بند تھیں، مجھے نظر آرہا تھا کہ میرے جانے کے بعد میرے حکمراں میری موت کا ذمہ دار مجھے ہی ٹھہرا دیں گے۔

مجھے محسوس ہورہا تھا کہ حکمراں کورونا سے عوام کو بچانے کی نہیں بلکہ کورونا کے نام پر بارہ سو ارب روپے کی لوٹ مار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ میں اب واپس اپنے گھر پہنچ چکا تھا۔ ڈرائیور نے بھی مجھے ہاتھ لگانے سے انکار کردیا۔

میری اہلیہ نے روتے بلکتے مجھے ایمبولینس سے باہر نکالا۔ میرا آخری وقت آچکا تھا، میں نے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے بھیگی آنکھوں سے اپنی اہلیہ کو آخری دفعہ دیکھا، کلمہ طیبہ کا ورد کیا اور اس ظالم دنیا سے رخصت ہو گیا، اس یقین کے ساتھ کہ آخرت میں میرے ہاتھ ہوں گے حکمرانوں کا گریباں، وہاں معافی نہیں ملے گی۔ ان شاء ﷲ۔

تازہ ترین