• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت پرانی بات ہے شاید یونیورسٹی کے دنوں کی۔ میرے ہاتھ میں ایک کمیاب سی کتاب تھی ’’FAMOUS LAST WORDS‘‘ خوب صورت شاعر شعیب بن عزیز نے عنوان دیکھا تو کتاب مانگ لی۔ میں پڑھ چکا تھا، انکار نہ کر سکا۔ شعیب بن عزیز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ کتاب ’’پی‘‘ گیا کیونکہ چیل کے گھونسلے میں گیا ماس تو ’’نیب‘‘ بھی برآمد نہیں کر سکتا۔

میں طبعاً کسی کو بھی انکار نہیں کر سکتا لیکن اس ’’حادثہ‘‘ کے بعد میں نے کتاب کے معاملہ میں انکار کرنا سیکھ لیا کیونکہ کتاب ہم جیسوں کا پیار بھی ہے، سنگھار بھی ہے، اوزار بھی ہے، ہتھیار بھی ہے اور خاندانی روایت بھی کہ باپ، دادا کی لائبریریوں میں پروان چڑھے۔

جہاں تک تعلق ہے ’’انکار‘‘ کا تو ’’جرأتِ انکار‘‘ سے میں بہت آگاہ ہوں لیکن روٹین لائف میں انکار میرے بس میں نہیں چاہے اپنا نقصان ہو جائے کیونکہ میرا تعلق عدیم ہاشمی جیسوں کے قبیلے سے ہے جس نے کہا تھا ؎اس نے مانگا بھی تو کیا، ہم سے جدائی مانگی ایک ہم تھے، ہمیں انکار نہ کرنا آیاعدیم کے۔

اس شعر کے جواب میں کبھی میں نے اسے اپنا یہ شعر سنایا تھا:مکرنا چاہوں تو اپنے سے شرم آئے مجھےمیں چاہتا ہوں کہ تو خود ہی چھوڑ جائے مجھےباٹم لائن اس تمہید کی یہ کہ کتاب کے معاملے میں صاف انکار میں نے شعیب بن عزیز کی ’’کتاب خوری‘‘ سے سیکھا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ جو کسی کو کتاب ادھار دے وہ بیوقوف ہے اور جو کتاب لے کر واپس کر دے وہ مہا بیوقوف ہے۔

یہ سب کچھ اس لئے یاد آیا کہ آج میں اپنے قارئین کے ساتھ کچھ بڑے لوگوں کے آخری کلمات، الوداعی کلمات شیئر کرنا چاہتا ہوں جو کم از کم میرے لئے بہت ہی انوکھا تجربہ تھا۔کینز کو کون نہیں جانتا، خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے اکنامکس پڑھی ہو۔

پورا نام JOHN MAYNARD KEYNES۔ ممتاز ترین برطانوی ماہر ین اقتصادیات میں سے ایک، جس کی تھیوریز نے ویلفیئر سٹیٹس کے قیام میں کمال کردار ادا کیا۔ ان کی چند سرگرمیاں ایسی بھی تھیں جن کا ذکر اس کالم میں مناسب نہیں۔

بسترِ مرگ پر KEYNES کا الوداعی جملہ یہ تھا۔"I WISH I HAD DRUNK MORE CHAMPAGNE"مینلو پارک (MENLO PARK) کے ان پڑھ عظیم جادوگر اور بنی نوع انسان کے محسن، حیران کن موجد تھامس ایڈیسن کو بھلا کون نہیں جانتا۔ اس جینئس کی ایجادات کا ذکر کرنے بیٹھوں تو ایک کالم کیا کتابیں لکھنا پڑیں گی۔

بس یوں سمجھ لیں کہ دنیا کے ہر ’’بلب‘‘ میں THOMAS EDISON روشن ہے اور روزِقیامت تک روشن رہے گا۔ اس دوریش صفت موجد نے مرتے ہوئے کہا:

"IT IS VERY BEAUTIFUL OVER THERE."

میں اکثرسوچتا ہوں کہ شاید انسانوں کی بہتری اور بھلائی کے لئے کام کرنے والا ہر شخص زندگی کے آخری لمحات میں ایسے ہی محسوس کرتا ہوگا۔

شاعر، بہت کچھ دریافت کرنے والا اور کبھی کبھی بحری قذاقی سے بھی لطف اندوز ہونے والا سرپھرا سر والٹر ریلے (SIR WALTER RALEIGH) جس نے کہا تھا:"THIS IS A SHARP MEDICINE, BUT A SURE REMEDY FOR ALL EVILS."

سزائے موت پر تیز دھار آلۂ قتل دیکھ کر یہ جملہ والٹر ریلے ہی بول سکتا تھا۔برطانیہ کی پہلی دولت مند خاتون ممبر ’’ہائوس آف کامن‘‘ LADY ASTORنے بسترِ مرگ پر خود کو عزیز و اقارب کے درمیان گھرا ہوا دیکھ کر کہا تھا..."AM I DYING OR IS THIS MY BIRTHDAY?"تب اس دلیر خاتون کی عمر 85سال تھی اور حس مزاح کا اندازہ آپ خود اس کے اس الوداعی جملے سے لگا سکتے ہیں کہ کیسی طرحدار بڑھیا ہوگی۔

سگمنڈ فرائیڈ کے کام بلکہ کاموں بلکہ کارناموں سے کوئی واقف ہو نہ ہو لیکن اس نابغۂ روزگار شخصیت کے نام سے ہر پڑھا لکھا شخص بخوبی واقف ہے۔ اس نے زندگی کے آخری پندرہ سال خاصی اذیت میں گزارے۔ وہ جبڑے کے کینسر میں مبتلا تھا۔

83سالہ سگمنڈ فرائیڈ کو تکلیف سے نجات کے لئے مارفین کی بہت ہی ہیوی قسم کی ڈوز دی گئی جس کے نتیجہ میں اگلے روز پُرسکون فرائیڈ اگلے جہان رخصت ہو گیا، اس رخصتی سے پہلے اس نے اپنے معالج سے آخری بار یہ کہا تھا:"YOU PROMISED ME THAT YOU WOULD HELP ME WHEN I COULD NO LONGER CARRY ON. IT IS ONLY TORTURE NOW AND IT MAKES NO SENSE ANYMORE."

ماتا ہری (MAT HARI) نے تو کمال کر دیا۔ بسترِ مرگ سے کیا پیغام دیا۔

DEATH IS NOTHING,NOR LIFE EITHER,FOR THAT MATTERTO DIE, TO SLEEP,TO PASS INTONO THINGNESS,WHAT DOESIT MATTER?EVERY THING ISAN ILLUSION."

زندگی اک خواب ہے جو خواب میں دیکھا گیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین