• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میجر آفتاب احمد کی زندگی ایک مسلسل داستان عزیمت ہے۔ آپکی فطرت پسندی جہاں ایک طرف آپ کے خیالات کو رومانویت سے لبریز کر دیتی ہے وہیں آپ کی جبلت میں بغاوت پسندی کو اس قدر کوٹ کوٹ کر بھر دیتی ہے کہ ایک منضبط فوجی ڈسپلن یا کسی سیاسی جماعت اور اس کے لیڈر کے ساتھ ذاتی تعلقات اور عقیدت بھی اسے قابو نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مارشل لا اور جمہوری ادوار حکومت دونوں میں یکساں طور معتوب ٹھہرے اور زندانوں کی زینت بنائے گئے۔ بلاخوف و خطر اور نتائج کی پروا کیے بغیرسچ بولنے کی عادت سے مجبور میجر آفتاب کو جب اپنے ہی ساتھی گرفتار کرکے جاں گسل انٹیروگیشن سے گزار کر سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو آپ پھر بھی برہنہ گوئی کی جسارت کرتے ہیں جس پر آپ کو ’بدو‘ کے لقب سے نوازا جاتا ہے جس کو آپ فخر سےاپنی پہچان بناتے ہیں۔ آپ کی جوانمردی اور بہادری کے قصّے اٹک قلعے کی جیل سے اندرونِ سندھ کے تادیب خانوں میں اب بھی گونج رہے ہیں جنہیں آپ نے اپنی کئی تصنیفات میں موضوع بناکر آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ رکھا ہے۔ان میں ’آخری سلام‘، ’جنرل آئی اکیوز یو‘، ’ساتواں بحری بیڑا‘ اور ’گیارہویں صلیبی جنگ‘ اور ’جنرل کے قلعے سے ملکہ کی جیل میں‘ شامل ہیں۔

بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں آپ میر مرتضیٰ بھٹو کے بہیمانہ قتل کے وقت موقع واردات پر موجود ہونے کے باوجود اگرچہ معجزانہ طور پر بچ گئے مگر ان کا ساتھ دینے کی پاداش میں تین سال تک سندھ کی مختلف جیلوں میں زیر عتاب رہے۔ اپنے انجام سے بےخبر آپ نے وقت کے جابروں سے مرعوب ہونے کے بجائے عدالت کے روبرو ہمیشہ کلمہ حق ادا کیا اور شاہ پرست منصفوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑنے کی سعئ لاحاصل کی۔ پاکستان میں حق و صداقت کی جہد مسلسل میں میجر آفتاب کی کاوشیں قابل تحسین ہیں اور ایک وسیع حلقہ آپ کی بہادری اور جدوجہد کا نہ صرف معترف بلکہ مداح بھی ہے۔ آپ کے بارے میں برادرم سہیل وڑائچ کی رائے ہے کہ ’’میجر آفتاب آج کی دنیا کے مجنوں ہیں جنہوں نے سچ کی لیلیٰ کیلئے سب کچھ قربان کیا، نہ کبھی قید و بند سے ڈرے اور نہ کبھی اس مؤقف پر مصلحت اختیار کی جسے یہ سچ کہتےہیں... میجر آفتاب آنے والے دور میں سچ کے حامی اور سماج کے باغی کے طور پر یاد رکھے جائیں گے‘‘۔ برادرم ریاض احمد آپ کو باغی نہیں بلکہ غازی تصور کرتے ہیں کیونکہ ’’باغی لفظ ان کی شجاعت کے مقابل جامعیت کا حامل نہیں‘‘۔ آپ کے بقول میجر آفتاب "غازی ہیں کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے نہیں، اپنے وطن سے وفاداری، اپنے ادارے کے وقار کی پاسداری اور اپنے ایمان کی سچائی کیلئے کیا‘‘۔

تازہ کتاب ’ہارن کھیڈ فقیرا‘ آپ کی خود نوشت ہے جس کو آپ نے اپنے آخری مورچے سے تشبیہ دی ہے۔ اس میں آپ نے اپنی زندگی کے غیر معمولی واقعات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی عصری تاریخ سے جڑے کئی کرداروں کیساتھ اپنے روابط کے بارے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس سے نہاں خانوں میں دبے ان کے کرداروں کی کئی جہتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ اس کتاب کا ابتدائی حصہ 1986ء میں جہلم کے زندان میں قید تنہائی کے ابتدائی ایام میں ترتیب پایا۔ اپنی زندگی کے ان لمحوں کو میجر صاحب زرخیز اور بار آور قرار دیتے ہیں۔ اپنی سوانح حیات کو شائع نہ کرنے یا اس میں نرم روی اختیار کرنے کے کئی دوستوں کے مسلسل مشوروں کو نظر انداز کرکے آپ نے اپنی زندگی کا ’’آخری مورچہ‘‘ بھی بحسن و خوبی سر کیا ہے جس پر آپ حسب روایت اپنی بیباکی اور جرات کی داد وصول کر رہے ہیں۔ اپنے پیش لفظ میں آپ رقم طراز ہیں:

’’وقائع نویس ہوں نہ کسی نئے شاہنامے کا کاتب۔ میرے پاس حسن کارکردگی کی کوئی سند تھی کہ مشاعرے میں بیٹھ سکتا، ہلال جرات نہ ستارہ کہ میری ضیاء میں کوئی منہدم مورچے روشن ہوتے، فرزند مشرق ہونے کا دعویٰ نہ فرزند پاکستان کہ یہ بلند رتبے انہی کیلئے تھے جن کے حوصلے تھے زیاد۔ میں پاکستان کے منہ بولے باغیوں میں کوئی تھا کہ انا الحق کا نعرہ بلند کرتا اور نہ ہی چاہ یوسف سے ابھرا ماہ تمام جو اندھیروں میں ڈوبے پاکستان میں بیوی بچوں سمیت راہزنی اور سرقے کے نور سے مستفید ہوتا.... اس دیس کی کھنکتی مٹی کا بہرحال وہ ذرہ میں ضرور تھا جسے عزت اور شان والے نے قوت گویائی دی اور سپاہی کا یونیفارم بھی اور حسب پیمانہ ایک ’جام جم‘ بھی جس میں وہ اپنا آپ اور گرد و پیش کو دیکھ سکتا... میجر آفتاب صرف اپنے آپ کو باغی نہیں سمجھتے بلکہ پورے نظام کو جس نے اس عہد و پیمان کو توڑا ’’کہ ہم رنگ، نسل، مذہب و ملت، اور صنفی تمیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان میں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کریں گے‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین