• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سقراط کے مطابق معاشرے کی تشکیل اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ کہ کوئی بھی فرد خود کفیل نہیں ہوتا۔ اسے روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے انسانوں کی صلاحیتوں،فنون، محنتوں اور کاوشوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ضرورت اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ دوستی کا تعلق بنانے پر اکساتی ہے۔ اسی دوستی سے معاشرے کے وجودکا آغاز ہوتا ہے۔چنانچہ ریاست انسانوں کی ضرورتوں اور مفادات کی پیداوار ہے۔ مل جل کر رہنا انسان کے اپنے فائدے میں ہے۔انسان کی اولین ضرورت خوراک ہے۔زندہ رہنے کے لوازمات ہوجانے کے بعد موسم کی شدت،دیگر خطرات سے بچاؤ اور زندگی کے احترام و تحفظ کیلئے چار دیواروں کے حصار پر موجود چھت ضروری ہے، تیسری ضرورت تن ڈھانپنے کیلئے کپڑے ہیں۔ اس طرح روٹی، کپڑا اور مکان وہ بنیادی ضرورتیں ہیں جو انسانوں کو مختلف پیشوں میں تقسیم کرکے ایک معاشرے کی تشکیل کیطرف لے جاتی ہیں۔ ایک آدمی یہ تمام کام نہیں کر سکتا۔ اس لیے معمار، جولاہے اور کسان کا پیشہ اپنانے کے لئے موزوں آدمی تلاش کئے جاتے ہیں۔ کچھ ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں ریاست کے شہری پورا نہیں کرسکتے۔ان کے لئے بیرونِ ریاست رابطہ کرنا پڑتا ہے مثلاً ایک ملک کے پاس اپنی ضرورت کی تمام چیزیں نہیں ہوتیں چنانچہ اس کام کے لئے تاجروں یا سوداگروں کا طبقہ وجود میں آتا ہے جو بیرونِ ریاست سے اشیا لا کر شہریوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ جب بنیادی ضرورت کی چیزیں ملک میں پیدا ہوں گی۔فصلیں اگیں گی۔ تاجر باہر سے بھی چیزیں منگوانے لگیں گے، تو ملک خوشحال ہوگا، لوگ صحت مند زندگی گزاریں گے۔جس سے لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا۔آبادی بڑھنے سے دولت میں اضافہ ہوگا تو لڑائی کا خطرہ جنم لے گا ۔امن اور متوازن زندگی کے لئے ایک نیا طبقے کی ضرورت ہوگی۔جو شر پھیلانے والوں کا قلع قمع کر سکیں۔ لڑائی شر پسند گروپوں سے بھی ہو سکتی ہے اور دیگر ملکوں سے بھی۔ ایک سوال کے جواب میں سقراط کہتا ہے کہ شہری ہرگز یہ لڑائی نہیں لڑ سکتے۔کیونکہ ریاست میں ہر آدمی ایک کام کرے گا۔ اب جو تاجر ہے وہ لڑائی نہیں کرے گا یا جو معمار،مزدور،کسان اور دکاندار ہے، وہ لڑائی نہیں کر سکتا۔اس لئے ملک کی نگہبانی کرنے والے لوگ سپاہی کہلائیں گے جن کا منصب صرف لڑائی ہوگا۔ لڑائی اور ملکی دفاع کرنے والوں کے لئے افلاطون جسمانی طاقت اور جوش وجذبے کی ضرورت پر زور دیتا ہے جبکہ سقراط کے نزدیک تربیت اور ذہانت بہت ضروری ہے۔ بہادر اور تربیت یافتہ لوگ اپنے دشمن کو ہر حال میں زیر کرنے کی اصلاحیت رکھتے ہوں گےلیکن محافظ طبقے کا مزاج بھی فلسفیانہ ہوگا۔وہ غور وفکر کرنے والے ہوں گے۔ افلاطون کے مطابق لڑائی کا خدشہ اس لئے ہو سکتا ہے کیونکہ ہمیشہ ایک شہر کے اندر دو شہر ہوتے ہیں۔ ایک امیروں و طاقتوروں کا اور دوسرا غریبوں وکمزوروں کا۔ انسان کی سرشت میں لالچ کا عنصر موجود ہے۔وہ اپنے مال و اسباب پر مطمئن نہیں ہوتا۔ مزید حاصل کرنے کی ہوس لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ تقسیم کی یہ تبدیلی بہت سی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس لئے محافظوں کا ہونا اور ان کا ذہین، بہادر،بردبار اور فلسفی ہونا بہت ضروری ہے۔ سقراط ہر طبقہ کے لئے روح اور جسم کی متوازن تعلیم و تربیت کا خواہاں ہے۔اس کے مطابق بعض اوقات ناتجربہ کار روح،خیالات میں انتشار کی وجہ سے جھگڑے فساد میں مبتلا کر عدالتوں میں چلی جاتی ہے اور غیر صحت مند جسم بیمار ہوکر اسپتالوں میں چلا جاتا ہے۔ایسی صورت میں ریاست کو ڈاکٹروں اور منصفوں کی ضرورت زیادہ پڑے گی لیکن اگر روح اور جسم کی موزوں تعلیم و تربیت طریقے اور سلیقے سے ہوگی تو چند ڈاکٹروں اور چند منصفوں سے کام چلایا جاسکتا ہے۔اس لئے روح اور جسم، دونوں کی تربیت متواتر اور ساتھ ساتھ ہونی چاہیے۔سقراط روح کے لئے موسیقی کو لازمی قرار دیتا ہے۔موسیقی میں ذات کی تفہیم کے ساتھ سرشاری اور طمانیت کے جذبات کی تشفی ہوتی ہے۔اس لئے وہ میوزک کے بغیر ریاست کو وحشیوں اور درندوں کا ہجوم کہتا ہےاور جسمانی تعلیم کے بغیر ریاست صرف بیماروں،ذہنی مریضوں اور غیر صحت مند لوگوں کی بستی ہوگی۔سقراط کا نظریہ یہ بھی ہے کہ اچھی ریاست اچھے شہریوں سے وجود میں آتی ہے۔ افلاطون انسانی شخصیت میں جبلت وطاقت،جذبات واحساسات اور علم و استدلال کے حوالے سے ریاست کی تشکیل کرتا ہے۔پہلی قسم والے کاروبار،زراعت اور دیگر پیشوں سے متعلق، جذبات رکھنے والے میدان جنگ میں زیادہ دلیری دکھاتے ہیں اس لئے دوسری قسم والے دفاعی شعبے میں،تیسری قسم کے لوگ علم اور خیر کے پرچارک ہوتے ہیں۔ان کے ذاتی اور مادی مفادات نہیں ہوتےاس لئے وہ حکومت کریں گے۔سقراط کی اس آئیڈیل ریاست میں بقول اسکے تاجر اور ہنرمند پیشہ لوگ صرف صنعت اور پیداوار پر توجہ دیں گے۔حکومت سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوگا،محافظین سرحدوں کی حفاظت اور بیرونی حملوں سے بچنے کی تراکیب کریں گے ان کا دیگر شعبوں اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔بہت فہم وفراست والے عالم لوگ حکومت کریں گے اور فلسفی و سائنسدان ان کے صلاح کار ہوں گے۔ کسی اور طبقے کی حکمرانی کو افلاطون ریاست کی تباہی کا نام دیتا ہے۔اس کے مطابق تاجر کا دل دولت کا خواہشمند ہے اگر وہ حکمران بنے گا تو ریاست اور شہریوں کی بھلائی کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں لگا رہے گا۔ اس کا حکومت میں آنا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔آج سے 2500سال پہلے کے نظریات آج بھی سنہری حروف میں لکھنے اور عمل کے لئے بہترین ہیں۔سمجھنے کی بات اتنی ہے کہ ہر شعبے کے افراد کی روحانی و جسمانی صحت کو یقینی بنانے کیلئے روح اور جسم کی تربیت کا انتظام کیا جائے۔

تازہ ترین