• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی ایس او کے بورڈ آف مینجمنٹ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے گزشتہ دور حکومت میں میری پی ایس او کے واپڈا کو تیل سپلائی کے واجبات کی عدم ادائیگی کے سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ سے کئی میٹنگز ہوئیں اور واپڈا کی بہت زیادہ ٹرانسمیشن ڈسٹری بیوشن نقصانات (چوری)، صارفین سے بجلی کے بلوں کی عدم وصولی، کرپشن اور ادارے کی خراب گورننس اور کارکردگی کی وجہ سے واپڈا کے نقصانات 293/ارب روپے سے بڑھ کر 450/ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں لیکن پلاننگ کمیشن کا تخمینہ ہے کہ پاور سیکٹر کا یہ خسارہ رواں مالی سال کے اختتام تک 592/ارب روپے اور مجموعی ملکی گردشی قرضے (سرکولر ڈیٹ) جو 2006ء میں 111.26/ارب روپے تھے42% سالانہ اضافے سے بڑھ کر2012ء تک872.41/ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ 2006ء میں یہ قرضے111.26/ارب روپے،2007ء میں 144.99/ارب روپے، 2008ء میں 161.21/ارب روپے، 2009ء میں 235.65/ارب روپے،2010ء میں 365.66/ارب روپے،2011ء میں 537.53/ارب روپے اور 2012-13ء میں 872.41 / ارب روپے جو ہماری جی ڈی پی کا 4% بنتا ہے کی خطرناک حد تک پہنچ سکتے ہیں۔ پاور سیکٹر کے 592/ارب روپے کے خسارے میں 277/ارب روپے (47%) ٹی اینڈ ڈی نقصانات اور بجلی کی چوری، حکومتی سبسڈی 215/ارب روپے(36%) اور فیول ایڈجسٹمنٹ 100/ارب روپے (17%) شامل ہیں۔ پلاننگ کمیشن نے اس بڑھتے ہوئے سرکولر ڈیٹ کا سبب حکومت کی خراب گورننس، بجلی اور فیول کی قیمتوں کا غلط تعین، بجلی کے بلوں کی عدم وصولی، وزارت خزانہ کی طرف سے سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر اور وزارت پانی و بجلی کی ناقص منصوبہ بندی بتایا ہے۔ یو ایس ایڈ اور پلاننگ کمیشن نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو گزشتہ5 سالوں میں پاور سیکٹر اور سرکولر ڈیٹ کی وجہ سے تقریباً 10% جی ڈی پی کا نقصان ہوا ہے یعنی ملکی گروتھ ریٹ میں ہر سال2% کمی ہوئی۔ پاور سیکٹر کے خسارے میں کمی کیلئے پلاننگ کمیشن نے 3 سال پاور سیکٹر میں 14% بجلی کے نرخوں میں اضافے کی سفارش کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیپرا کو تجویز دی گئی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں دی جانے والی حکومتی سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کیا جائے۔
اگر واپڈا کے نقصانات کو کنٹرول کرنے کیلئے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو واپڈا کے ساتھ ساتھ اسے تیل اور گیس سپلائی کرنے والے ادارے بھی دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔ پی ایس او ایک منافع بخش قومی ادارہ ہے لیکن واپڈا کی جانب سے تیل کی سپلائی کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے آج یہ ادارہ بینکوں میں ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان اور دوسرے اعلیٰ حکام کی ہدایت ہے کہ واپڈا کو فرنس آئل کی بلاتعطل پوری مقدار سپلائی جاری رکھی جائے تاکہ ملک میں لوڈشیڈنگ میں اضافہ نہ ہو۔ حکومت پاکستان واپڈا کو بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے ہر سال 280/ارب روپے TDS سبسڈی دیتی ہے جس میں 50/ارب روپے کے ای ایس سی کی سبسڈی بھی شامل ہے لیکن اس سال حکومت نے واپڈا کو پہلے8ماہ میں ہی پورے سال کی سبسڈی ادا کر دی ہے تاکہ پی ایس او کو واجبات کی ادائیگی کی جا سکے لیکن اس کے باوجود ہر ہفتے پی ایس او کی انتظامیہ کو بینکوں کو درآمدی فرنس آئل کی ادائیگی کیلئے وزارت خزانہ کے چکر لگانا پڑرہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پی ایس او واپڈا کو تیل کی سپلائی روک بھی نہیں سکتی کیونکہ ایسا کرنے سے ملک میں لوڈشیڈنگ کا بحران پیدا ہوجائے گا۔ واپڈا کی فاٹا اور دیگر صارفین سے بلوں کی عدم وصولی رواں مالی سال 100/ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جس کی ایک وجہ ان صارفین کا بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کیلئے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرنا بھی ہے۔
2010ء میں حکومت واپڈا کو بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کے عوض3.25 روپے فی یونٹ سبسڈی دیتی تھی جو صارفین کے نرخوں کا 45% تھا۔ حکومت نے بجلی کے نرخوں کو نہ بڑھانے کے عوض 2008ء سے 2013ء تک واپڈا کو 1.4 کھرب روپے کی سبسڈی دی ہے جو ہمارا قومی خزانہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر یہ پیسے عوام کی فلاح و بہبود، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کئے جاتے تو آج عوام کا معیار زندگی بہتر ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسی طرح چلتا رہے گا یا ملکی مفاد میں صورتحال کو بہتربنایا جاسکتا ہے اور کس طرح؟ گزشتہ کئی دور حکومت میں پاور سیکٹر کے بڑھتے ہوئے خسارے اور اس کے حکومت پر بوجھ پر پارلیمینٹ میں بجٹ تقریر میں بھی اعلانات کئے گئے لیکن کوئی حقیقی پیشرفت نہ ہوسکی اور آج ہمارے پاور سیکٹر کا خسارہ 450/ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے واپڈا/ پیپکو کی انتظامیہ کو بدلنا ہوگا، بجلی سپلائی کرنے والی تمام کمپنیوں (DISCOS) کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دینے ہوں گے جس میں حکومتی عہدیداران کے بجائے زیادہ تر کارپوریٹ سیکٹرز کے پروفیشنلز رکھے جائیں جنہیں اپنی کمپنیوں کو کامیابی سے چلانے کا پورا اختیار حاصل ہو اور ان اداروں میں حکومتی مداخلت نہ ہو۔ اضافی ملازمین کی چھانٹی کی جائے، ان اداروں کو بجلی کی چوری اور بلوں کی وصولی کے ہدف دیئے جائیں اور جس کا ہر سہ ماہی جائزہ لیا جائے۔ کے ای ایس سی نے کراچی میں ان علاقوں میں جہاں بجلی کی چوری زیادہ ہے اور جن علاقوں میں بلوں کی وصولی میں مشکلات ہیں، علاقے کے بااثر لوگوں کو کمیشن کی بنیاد پر یہ دونوں کام انہیں سونپے ہیں اور وہ اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر اپنے علاقوں میں کنڈے لگنے نہیں دیتے اور بجلی کے بلوں کی وصولی میں مدد دیتے ہیں جس کے عوض انہیں خاطر خواہ کمیشن ملتا ہے۔ واپڈا بھی اس کامیاب ماڈل کو اپنا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فرنس آئل سے تقریباً 64% (21.04 روپے فی یونٹ) اور ہائیڈرو سے 33% بجلی پیدا کی جاتی ہے جبکہ متبادل توانائی سے سستی بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہماری بجلی کی اوسط پیداواری لاگت زیادہ ہے۔ ہمارے بجلی گھر خاطر خواہ مینٹی نینس نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم بجلی پیدا کررہے ہیں، ہماری بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 17,000 میگاواٹ ہے لیکن ہم صرف 9,000 میگاواٹ بجلی پیدا کررہے ہیں جبکہ ہماری طلب 14,000 میگاواٹ ہے۔ اس طرح ہمیں 5,000 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے جو اپنے بجلی گھروں کو پورا ایندھن سپلائی کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔
میں صارفین کو یکساں سبسڈی دینے کا ہمیشہ سے مخالف اور ٹارگٹڈ سبسڈی کا حامی رہا ہوں لہٰذا ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جس میں صاحب استطاعت افراد کو سبسڈائز بجلی نہ دی جاسکے بلکہ سبسڈی صرف ان لوگوں اور سیکٹرز کو ملے جو مہنگی بجلی خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔ ہمیں صارفین کو بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری اور انرجی سیور بلب کے استعمال کی ترغیب دینا ہوگی تاکہ بجلی کے بے جا استعمال میں کمی لائی جاسکے۔اس کے علاوہ بجلی سے چلنے والے گیزر اور ہیٹرز کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرکے متبادل انرجی سے چلنے والے گیزرز اور ہیٹرز لگائے جائیں۔ حکومت نے IMF سے پاور سیکٹر میں ریفارمز کے معاہدے کے برخلاف بجلی سپلائی کرنے والی مختلف کمپنیوں ڈسکوز اور جینکوز کو دوبارہ واپڈا کے ماتحت کردیا ہے جو خود ایک ناکام ادارہ ہے۔ حکومت کے اس اقدام پر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور یو ایس ایڈ نے اپنی امداد روک دینے کی دھمکی دے دی ہے۔ مالیاتی اداروں کی امداد معطل ہونے کی صورت میں ورلڈ بینک کے تحت واپڈا کا تربیلا ڈیم توسیعی منصوبہIV تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔ غرض ملکی پاور سیکٹر کا خسارہ اس کینسر کی مانند ہے جو آہستہ آہستہ پھیل کر پورے جسم کو ناکارہ کردیتا ہے۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اسے جڑ سے اکھاڑنا ہوگا جس کیلئے ہمیں حکومتی پاور سپلائی کمپنیوں میں ہنگامی بنیادوں پر مطلوبہ اصلاحات لانی ہوں گی۔
تازہ ترین