• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت عوام کی اکثریت کی مرضی کے مطابق حکمرانوں کے چناوٴ کا نام ہے مگر ہمارا طریق انتخاب اس کی کوئی ضمانت نہیں دیتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر مقابلہ محض تین ہی امیدواروں میں ہو اور ان میں سے ایک کو 25، دوسرے کو35/اور تیسرے کو 40 فیصد ووٹ ملیں تو جیتنے والا امیدوار 60 فیصد ووٹروں کی مرضی کے برعکس منتخب ہوگا اور جب انتخابی اکھاڑے میں درجنوں امیدوار ڈنڈ پیل رہے ہوں جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے تو بسا اوقات صرف پندرہ بیس فیصد ووٹ لینے والا بھی کامیاب قرار پا جاتا ہے حالانکہ اسّی پچاسی فیصد ووٹروں کی رائے اس کے خلاف ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے الیکشن کے نتیجے میں ملک کی بھاری اکثریت کی مرضی کے خلاف حکومت بنتی ہے۔ اب خود سوچئے کہ جو حکومت پہلے دن سے عوام کی بھاری اکثریت کی تائید سے محروم ہو وہ آخر کس طرح قومی یکجہتی و استحکام کی ضامن ہو سکتی ہے۔ عوام کی حقیقی اکثریت کا اعتماد رکھنے والی حکومت ہی کے لئے ملک و قوم کی بہتری پر مبنی بڑے فیصلے کرنا، قومی مفاد کو عالمی طاقتوں کے مطالبات پر فوقیت دینا اور مختلف دوسرے درپیش چیلنجوں سے نمٹنا ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ انتخابی نتائج میں ووٹروں کی اکثریت کی مرضی کی عکاسی کس طرح یقینی بنائی جائے؟ یہ مسئلہ دنیا کے کئی ملکوں میں ایک سادہ سے طریقے کو اپنا کر حل کر لیا گیا ہے۔
اس طریقہ انتخاب کے تحت جیتنے کے لئے ڈالے گئے ووٹوں میں سے نصف سے زائد کا حصول لازمی ہوتا ہے۔ پچاس امیدوار بھی مقابلے میں شریک ہوں اور جیتنے والا پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر لے تو اِسی مرحلے میں فیصلہ ہو جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں میں دوبارہ مقابلہ کرایا جاتا ہے۔ اس طرح جیتنے والا امیدوار لازمی طور پر پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لے کرجیتتا ہے اور یوں اپنے حلقہٴ انتخاب کی اکثریت کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے۔ اس دوسرے مرحلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ دو میں سے جس امیدوار کی چاہیں حمایت کریں اور اپنے حامیوں کو اسے ووٹ دینے کی ترغیب دیں۔ پہلے مرحلے میں چونکہ تمام سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ نمائندے اور آزاد امیدوار قسمت آزمائی کر چکے ہوتے ہیں لہٰذا کسی کے لئے اس شکوے شکایت کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اسے انتخابی عمل سے دور رکھا گیا جبکہ معاملہ دوسرے مرحلے تک پہنچنے کی صورت میں جب یہ امیدوار اور ان کے ووٹر پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں میں سے کسی ایک کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہیں تو خود بخود باہمی مفاہمت فروغ پاتی ہے اور ہم خیال عناصر کے اتحاد کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس طرح ملک میں غیر ضروری تقسیم اور انتشار کی کیفیت بتدریج ختم ہوتی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس طریق انتخاب میں کسی اندرونی یا بیرونی طاقت کے لئے یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ کسی سیاسی جماعت کے ووٹ تقسیم کرنے کے لئے مختلف عناصر کو میدان میں لاکر کسی ایسے گروہ کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کیا جائے جو اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتا۔
جن ملکوں میں اس طرح حقیقی اکثریت کی مرضی کے مطابق حکومت سازی ہوئی ہے، اس کی تازہ ترین مثال مصر ہے۔ عوامی تحریک کے ہاتھوں ساٹھ سال سے جاری آمرانہ نظام حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ دو سال میں مصر میں تمام پارلیمانی اور صدارتی انتخابات اسی دو مرحلے والے طریقے کے مطابق عمل میں آئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پارلیمان میں صدر مرسی کو تین چوتھائی ارکان کی تائید حاصل ہے جبکہ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں وہ عوام کے براہ راست ووٹوں میں سے پچاس فیصد سے زیادہ حاصل کر کے کامیاب ہوئے ہیں۔ قوم کی اسی بھرپور حمایت کا نتیجہ ہے کہ وہ حسنی مبارک کی کرپٹ باقیات کی پے در پے سازشوں کا نہایت کامیابی اور پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے عوام کے مفاد پر مبنی فیصلے اور اقدامات کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی انتخابی نشست جیتنے کے لئے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹوں کا حصول لازمی قرار دے کر اور پہلے مرحلے میں ایسا نہ ہونے کی صورت میں دوسرے مرحلے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان مقابلہ کرا کے عوام کی حقیقی اکثریت کی نمائندہ حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس نظام کو اپنانے میں بعض دشواریاں یقینا ہوں گی، کام بھی بڑھے گا اور اخراجات بھی، لیکن اس کے فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلے میں ان مشکلات کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں۔ آئندہ انتخابات تو اب سر پر آگئے ہیں اور ان میں اس طریقے کا اختیار کیا جانا شاید ممکن نہ ہو مگر ملک کے باشعور حلقوں کو اس بارے میں سوچ بچار ضرور کرنی چاہئے تاکہ مستقبل میں حقیقی اکثریت کے اعتماد کے حامل نمائندوں پر مشتمل حکومتوں کے قیام کو ہمیشہ کے لئے یقینی بنا کر نقلی کے بجائے اصلی جمہویت، قومی یکجہتی اور ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار کی جاسکے۔
تازہ ترین