• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ صورت جس چیز سے پیدا ہوتی ہے اس کی کوئی صورت نہیں ہوتی، جس طرح آگ سے پیدا ہونے والے دھویں کی صورت، تبھی موسیقی کے استادوں نے موسیقی کو بے صورت بتایا ہے۔ لے دکھائی نہیں دیتی، لے پر جھومتے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ میری لندن یاترا کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی تھی، تبھی جناب حمید اختر کا فون موصول ہوا ’’چند دنوں کیلئے لندن چلے آئو‘‘۔ (حمید اختر کو مرحوم لکھنے کو دل نہیں مانتا) ان دنوں حمید اختر لاہور کے ایک روزنامہ میں کالم لکھتے تھے بلکہ صحیح الفاظ یوں ہیں کہ تاریخ رقم کرتے تھے کہ وہ مرتے دم تک صداقت، استقامت اور نظریے سے وابستگی کا دامن ایک لمحہ کیلئے بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑ سکے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں مکمل صلاحیت استقامت، صداقت اور نظریے سے وابستگی یہی وہ وصف ہیں جن کے ذریعے برائیوں کو خوف زدہ کیا جا سکتا ہے۔ نومبر کی 17تاریخ کو میں ایمسٹرڈیم سے لندن کی طرف جا رہا تھا۔ میں بااعتماد تھا کہ وقت مقررہ پر زمین کو چھو لوں گا۔ سو زمین کی ’’اونچ نیچ‘‘ سے بے نیاز ہو کر ایک ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑ رہا تھا۔ ایمسٹرڈیم سے لندن کی پرواز تمام کی تمام سمندر (نارتھ سی) کے اوپر سے ہوتی ہے۔ ہمارا جہاز 35ہزار فٹ کی بلندی پر اُڑ رہا تھا۔ نیچے سمندر کی سطح پر جگہ جگہ چھوٹے بڑے سمندری جہاز اور کشتیاں چل رہی تھیں۔ بظاہر دونوں بالکل دو قسم کی سواریاں ہیں مگر حقیقتاً دونوں ایک ہیں۔ دونوں کے دونوں تیر رہے ہیں ایک ہوا کی سطح پر تیر رہا ہے اور دوسرا سمندر کی سطح پر۔ سورج پورے طمطراق سے جلوہ گر تھا۔ ہمارے یہاں سورج رات دس بجے غروب ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو گیارہ بھی بج جاتے ہیں لیکن جب بھی ہوتا ہے تو خوب غروب ہوتا ہے۔ ہالینڈ میں موسم کے بارے میں کوئی ’’سچی پیشگوئی‘‘ نہیں کی جا سکتی، یہاں ایک کہاوت ہے کہ اگر آپ کو موسم پسند نہیں آرہا ہے تو پانچ منٹ انتظار کر لیجئے۔ 45منٹ کی پرواز میں جہاں میرا دھیان اور بہت سی باتوں کی طرف گیا وہاں میں نے سوچا کہ مغربی دنیا کی ماڈرن ٹیکنالوجی کا کیا عجب احسان ہے کہ اس نے انسان کے قابو میں ایسی سواری دے دی ہے جس کو رواں کرنے کیلئے دریائوں پر پل بنانے کی ضرورت نہیں، جس کی راہ میں پہاڑ اور سمندر حائل نہیں ہوتے۔ آبادیوں کی ناہمواریاں جس کا راستہ نہیں روکتیں۔ وہ زمین کا سہارا لئے بغیر ہوا کے دوش پر اِدھر سے اُدھر اُڑتا ہے اور تمام سواریوں سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آدمی کو منزل پر پہنچا دیتا ہے، تاہم عام ذوق کے برعکس میرے لئے ہوائی جہاز کوئی پسندیدہ سواری نہیں۔ جب بھی میں ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ’’اُڑن جیل‘‘ میں بند ہو گیا ہوں کہ میری طبیعت میں آزاد پسندی بہت زیادہ ہے۔ زندگی بھر ’’دھکے کھانے‘‘ کے بعد آج بھی خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں ذہنی کشادگی اور آزادی فکر کی جانب ہی رہنا پسند کروں گا۔ ایسی کوئی زندگی مجھے عذاب معلوم ہوتی ہے جس میں میرے اوپر خارجی پابندیاں لگی ہوں۔ ہوائی سفر کی ایک خوبی جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ ہوائی جہاز میں مسافروں کیلئے گانے اور موسیقی کا انتظام ہوتا ہے مگر اس طرح نہیں کہ اسپیکر پر ریکارڈ بجا کر سب کی نیندیں اور سکون برباد کیا جا رہا ہو۔ جہاز میں یہ سب کام ’’ہیڈسیٹ‘‘ کے خاموش انتظام کے تحت ہوتا ہے جس سے آپ کے آرام و سکون میں ذرا سا خلل نہیں پڑتا۔ جو شخص سننا چاہتا ہے وہی سنتا ہے، جو نہیں سننا چاہتا اس کے کان اس طرح سے محفوظ رہتے ہیں گویا یہاں گانے اور موسیقی کا کوئی وجود ہی نہیں۔ جدید تہذیب نے جس قسم کے آداب کو دنیا میں رواج دیا ہے۔ یہ آداب دو متعین اصولوں پر قائم ہیں اپنی ذات کی تکمیل، مگر اس طرح کہ دوسرے کی ذات کو کوئی گزند نہ پہنچے اور یہی معاشرہ کی ترقی کا بنیادی اصول ہے۔

عمرانی ماہرین نفسیات دان اور ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غیر ضروری اور ناپسندیدہ آوازیں انسان کو بے خوابی، زمینی و اعصابی دبائو اور اعصابی کمزوری میں مبتلا کر دیتی ہیں اور اس وجہ سے دل کے دورے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

لندن جاتے ہوئے میں نے ساٹھ منٹ ’’حاصل‘‘ کئے تھے۔ لندن سے واپسی پر میں نے ایک گھنٹہ ’’کھو دیا‘‘ چونکہ میں حسابی کتاب آدمی نہیں ہوں اس لئے نہیں چاہتا کہ نفع میں رہا یا نقصان میں…

ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں

پھر اندھیرے کہاں قیام کریں

تازہ ترین