• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11 مئی2013ء کو آئندہ پانچ برس کیلئے ملک کی سیاسی قیادت کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی اُفق پر چھائی ہوئی گرد صاف ہو رہی ہے او رمستقبل کا اُبھرتا ہوا منظر نامہ واضح ہوتا جارہا ہے۔ سردست پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ ایک جانب نظر آرہے ہیں جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور ان کے متوازی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) صف بندی کر رہے ہیں جبکہ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کی سربراہی میں آل پاکستان مسلم لیگ بھی سامنے آ گئی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والا سیاسی مینڈیٹ بھی خاصا منقسم ہوگا۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایسی مخلوط حکومتیں معرض وجود میں آسکتی ہیں جو جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے تعاون سے بن سکتی ہیں۔ مرکز میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) کسی مخلوط حکومت کی سربراہی کرتی ہے تو مخلوط حکومتوں کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا کردار بڑا مایوس کن رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی کا ماضی بھی مخلوط حکومتوں میں ناکامی سے عبارت ہے لیکن آخری مخلوط حکومت جس کی سربراہی بادی النظر میں آصف علی زرداری کر رہے تھے، اس نے اپنے پانچ سال مکمل کئے۔
سندھ میں مسلم لیگ کی عدم حکمرانی اور مرکز میں ان کی حکمرانی مسائل پیدا کرسکتی ہے جبکہ پیپلزپارٹی ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہو لیکن انتخابات کے بعد کی صورتحال میں پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی مل کر حکومت بنانے کی کوشش کریں گے اور اس ضمن میں متحدہ قومی موومنٹ سندھ میں وزارتِ اعلیٰ کے منصب کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے۔ یوں مستقبل کا منظر نامہ خاصی بے یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔ اس پورے سیاسی منظر میں تحریک انصاف اس لئے زیر بحث نہیں آئی کہ نوّے کی دہائی سے لے کر آج تک تحریک انصاف جلسوں سے باہر نہیں آسکی۔ ماضی میں بھی بڑے فقید المثال جلسے اس جماعت نے کئے لیکن انتخابی نتائج مایوس کن رہے۔ سیاسی تجزیئے کے مطابق یہ کہاجاسکتا ہے کہ عمران خان بھی مذہبی جماعتوں کی طرز پر عوام کو تو اکٹھا کرسکتے ہیں لیکن فیصلہ کن ووٹ حاصل کرنے میں وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ بعض مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والی وہ قد آور شخصیات جو بڑے سیاسی خانوادوں سے تعلق رکھتی ہیں،کامیاب ہوجائیں اور تحریک انصاف ایک بار پھر شکست کھا جائے۔ بہرحال یہ فیصلہ عوامی مینڈیٹ نے کرنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اگر ہم دیکھیں تو میاں نواز شریف کے ہمراہ بہت سی ایسی شخصیات تھیں جو آج ان کے ہمراہ نہیں جس میں چوہدری برادران ، شیخ رشید، مشاہد حسین سید، حامد ناصر چٹھہ، فخر امام اور منظور وٹو جیسی شخصیات شامل ہیں، بالکل اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر بھی بہت سی شخصیات اب نظر نہیں آتیں، جس میں ناہید خان، جتوئی خاندان، جام خاندان، یہ وہ خانوادے ہیں جو پیپلز پارٹی کی طاقت سمجھے جاتے تھے لیکن آج یہ اس پارٹی سے دور نظر آتے ہیں۔
اس کے برعکس عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم وہ سیاسی جماعتیں ہیں جن کے ہاں قیادت کا انتخاب ایک مخصوص اور مروّجہ طریقے سے ہوتا ہے جس کے باعث ان کے ہاں کسی بڑی تبدیلی کو نوٹ نہیں کیا گیا۔ اس تناظر میں پاکستان کی سیاسی تاریخ مسلسل عدم استحکام کا شکار رہی ہے۔ سیاسی اُتھل پتھل ، سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ، سکڑنے اور پھیلنے کے عمل نے سیاسی نظام کو ارتقائی عمل سے نہیں گزرنے دیا۔ گو کہ گزشتہ پانچ برسوں میں آئینی ارتقاء کیلئے بہت سی آئینی ترامیم سامنے لائی گئیں لیکن وہ بھی نظام میں پختگی، سنجیدگی اور بالیدگی نہ لا سکیں۔ آج بھی اکثر جماعتیں تنظیمی ڈھانچے کی بنیاد پر الیکشن میں نہیں جا رہیں بلکہ کوئی وکٹیں گرا رہا ہے تو کوئی شمولیتوں کے سہارے کامیاب امیدواروں کی تلاش میں ہے۔ یہ درحقیقت سیاسی نظام کی ناکامی ہے۔ اس ناکامی کا مظہر نگراں حکومت کی تشکیل کے دوران بھی عوام نے نوٹ کیا ہے کہ بنیادی طور پر تو جانے والی حکومت ہی غیر جانبدار ، منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد کراتی ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاست دانوں نے اپنے اوپر بھروسہ کرنے کے بجائے غیرجانبدار اور غیر سیاسی لوگوں پر بھروسہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نگراں حکومت کی تشکیل کا ایسا نظام وضع کیا جو سیاسی نظام کم اور ایک ہاکی کا میچ زیادہ محسوس ہوا جس میں اگر مقررہ وقت میں میچ کا فیصلہ نہ ہو سکے تو اضافی وقت دیاجاتا ہے اور اگر اس میں بھی فیصلہ نہ ہو تو پینلٹی اسٹروک کے ذریعے فیصلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر یہ طریقہ بھی ناکام رہے تو پھر سڈن ڈیتھ مرحلے میں میچ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح الیکشن کمیشن نے نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ کرکے اس میچ کا فیصلہ سڈن ڈیتھ کے ذریعے کیا۔ اس پورے پس منظر میں الیکشن کمیشن کے فیصلے جس میں کراچی میں حلقہ بندیاں بھی شامل ہیں اور بہت سے ایسے فیصلے جن پر وہ اپنی رِٹ کو قائم نہیں رکھ سکا مثلاً سرکاری اداروں میں بھرتیاں، تقرریاں، تبادلے اور سرکاری فنڈز کا بے دریغ استعمال جیسے معاملات میں الیکشن کمیشن بے بس نظر آیا لہٰذا انتخابات کے بعد ہوسکتا ہے کہ انتخابات کے نتائج پر انگلیاں اُٹھیں جو کہ پاکستان کے کمزور سیاسی نظام کا وتیرہ رہا ہے۔ ملک کو مضبوط اور مستحکم حکومت اس وقت میسر آسکتی ہے جب سیاستدان سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے آنے والے مینڈیٹ کے مطابق کریں۔ فیصلوں کا انتشار اور سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت میں تبدیل کرنے کا عمل سیاسی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ بات اب قیاس میں رہنی چاہئے کہ آنے والا مینڈیٹ ماضی کے مینڈیٹ سے زیادہ منقسم ہوگا اور اس میں حکومت سازی کا عمل مزید مشکل ہوسکتا ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں جو علاقائی سطح پر کامیابیاں حاصل کرتی ہیں، ان کی اہمیت ایک بار پھر بڑھ جائے گی اور دو بڑی سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ انہیں قومی دھارے میں رکھتے ہوئے حکومت سازی کے فیصلے کریں۔ انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کے متعین کردہ ضابطہٴ اخلاق کی پاسداری کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ کارکنان کو انتخابی ٹکٹ جاری کئے جائیں۔ یہ ٹکٹ خاندان والوں کو یا بڑے گدی نشینوں کو نہیں ، بڑے سیاسی جغادریوں کو نہیں بلکہ ان سیاسی کارکنان کو دیئے جائیں جو نعرے بھی لگاتے ہیں اور دریاں بھی بچھاتے ہیں۔ آپ کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے ہیں اور آپ کی ایک پکار پر اپنی جان بھی دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اگر آج سیاسی جماعتیں اپنے ٹکٹ ان کارکنان کو دے دیں تو تبدیلی کا عمل شروع ہوسکتا ہے جس کا دعویٰ تو سب کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کے آغاز کے لئے تیار نہیں ہیں۔ امید ہے کہ آنے والا سیاسی منظر نامہ پاکستان کیلئے سودمند ثابت ہوگا اور وہ ایک ایسا نظام وضع کرے گا جس میں توانائی کا نظام ختم ہوسکے ، مہنگائی کا عفریت قابو میں آئے، بے روزگاری کو بڑھنے سے روکاجائے۔ آبی ذخائر کی تعمیر ہو یا بین الاقوامی معاہدے ، وہ خالصتاً عوام کے عظیم تر مفاد میں کئے جائیں اور اس کے اثرات و مضمرات کا بھی پیشگی جائزہ لیا جائے۔ پارلیمینٹ کو فیصلہ ساز بنایاجائے۔ اس کی قراردادیں اور اس کی آئینی ترامیم کو ان کی روح و متن کے مطابق تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل کیاجائے۔ سیاست میں ذاتی انا میں رہنے والے سیاسی موت مر جایا کرتے ہیں لہٰذا تمام سیاسی اکابرین کو انتخابات اپنے سیاسی نظریات اور سیاسی پروگراموں کے مطابق لڑنا چاہئیں لیکن ملک کو چلانے کیلئے سیاسی تدبر کا بھی استعمال کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ وطن عزیز کو11مئی کے انتخابات کے بعد ایک ایسی قیادت میسر آئے گی جو نہ صرف ملکی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہوگی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے وقار کو بلند کرے گی۔
تازہ ترین