• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاک ڈاؤن پرو فاق اور صوبہ سندھ کے درمیان تناؤ نے اور تو کچھ نہیں کیا مگر وفاق کی سیلز ٹیکس کی مد میں آنے والی آمدنی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس میں خاطر خواہ کمی کا ذریعہ بنا۔ دو مہینوں کی کاروباری بندش نے جہاں کاروباری حضرات کو نقصان پہنچایا وہیں گھریلو صارفین کی مہینے کی بچت میں واضح اضافہ یا دوسرے معنوں میں اخراجات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ گنجان آبادی والے علاقوں کے گلی کوچوں اور خاص طور پر گھروں میں ان کاروباری حضرات نے اپنا کاروبار جاری رکھا یعنی اگر سوفیصد ناسہی تو چالیس سے پچاس فیصد اپنا مال بیچنے میں کامیاب ہوسکے لیکن رسیدی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس جمع ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لہذا سب سے زیادہ نقصان ان حالات میں اصل میں وفاق کو ہوا ہے کیونکہ اس کی آمدنی میں براہ راست کمی واقع ہوئی ہے۔کراچی جو کے پورے ملک کا 70% ٹیکس جمع کرتا ایسی صورت میں اندارہ لگا لیں کہ اس سال بجٹ میں خسارہ کتنا ہوگا۔ بالکل اسی طرح وہ سپر اسٹورز جہاں روزمرہ کی ہر طرح کی چیزیں بیچی جاتی ہیں اس لاک ڈاؤن میں ان کو صرف روزمرہ کی چیزیں بیچنے کی اجازت تھی جس میں کھانے پینے کی اشیاء شامل تھیں اور دوسری چیزوں کے اوپر پابندی تھی۔ ایس او پیز کے تحت ان اسٹورز کی کھولنے کی اجازت دی گئی۔ مگر ساری سختیاں یا پابندیاں صرف مین گیٹ پر ہوتی ہیں اندر جا کر وہ ساری پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں اور ہر چیز بیچی جارہی ہے بس صرف اس کی رسید فراہم نہیں کی جاتی کپڑے، برتن اسی طرح کی دوسری ضروریات کی چیزیں بیچی جارہی ہیں لیکن رسید فراہم نہیں کی جارہی تاکہ ثبوت نہ رپے۔ دوسری طرف انتظامیہ بھی باہر کا منظر دیکھ کر مطمئن ہوجاتی ہے ۔ یا کچھ "وصولی" کہ بعد سب اچھا ہے کی مہر ثبت کر دیتی ہے۔ ایک طرف سندھ حکومت کو عوام کی صحت کی بڑی فکر ہے ۔ دوسری طرف کراچی میں اب صفائی کا نظام پھر خراب ہو چکا ہے جگہہ جگہہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں ۔ کوئی اٹھانے والا نہیں ۔ شہری حکومت تو لگتا ہے کورونا کے خوف سے پورے عملے سمیت قرنطینہ میں جاچکی ہے اور باہر آنے کا اس کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ لہذا جو کام کرتا ہے یا کام کی ذمہ داری لیتا ہے بوجھ تو اسے ہی اٹھانا ہوتا ۔ اب سندھ حکومت کو ہی عوام کے تحفظ کے لئے آگے بڑھنا ہوگا اور صفائی کے نظام کو خود یا شہری حکومت سے درست کروانا ہوگا ۔اسی طرح دوکانے کھولنے کا بھی عندیہ دے دیا گیا ہے ۔ ان کاروباری حضرات کو ایس او پیز میں اس بات کا بھی پابند کیاجائے کہ یہ کچرا نہیں بڑھائیں گے بلکہ کچرے کو ایک جگہہ جمع کرکے کوڑے دان میں ڈالیں گے اور پولتھین بیگز کا بالکل استعمال نہیں کریں گے۔کیونکہ ویسے بھی کورونا کی بدولت ہونے والے لاک ڈاون کی وجہ سے ماحولیات پہ اچھے اثرات مرتب ہوئے ۔ راقم نے اپنے کالم میں متعدد بار اسکا اعتراف کیا کہ کراچی میں کچرا بہت کم ہوچکا ہے۔ لیکن جیسے جیسے لاک ڈاون میں نرمی کی جارہی ہے کچرے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ لہذا سندھ حکومت سے مودبانہ گذارش ہے کہ صرف وفاق سے تناو رکھتے ہوئے لاک ڈاون پہ اصرار کرتے رہنے سے مریضوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوگی۔ صفائی کے نظام کو درست کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بیماری سانس کے ذریعے ہی پھیلتی ہے " کچرے سے خوشبو " نہیں آتی۔ وفاق سے بھی گذارش ہےکہ صوبائی حکومت کو اپنا مد مقابل نا سمجھیں بلکہ اپنا ہی حصہ سمجھیں تاکہ کشیدگی میں کمی آئے اور آپکی آمدنی آپ تک پہنچ سکے۔ورنہ اگلے بجٹ کے لئے مزید قرضہ کا بوجھ عوام کو ہی کو اٹھا نا ہوگا۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین