• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولوی سعید اظہر اچھے صحافی ہی نہیں اچھے، دلچسپ اور زندہ دل انسان بھی تھے۔ اُن کی وفات پر بہت سے کالم نگاروں نے خامہ فرسائی فرمائی ہے لیکن مجھے سب سے خوبصورت کالم شامی صاحب کا لگا ’’وہ مولوی‘ بھٹو کی پھانسی نے جسے بدل ڈالا‘‘ ایک تو اُس میں شامی صاحب نے سعید اظہر کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق کی تفصیل بیان فرمائی ہے دوسرے اس میں انہوں نے بھٹو صاحب کی کچھ ایسی تعریفیں بھی بیان فرما دی ہیں بالخصوص اُن کی المناک موت جس کی وجہ سے سعید صاحب کا نظریہ بدل گیا۔

اس دوسرے والے حصے پر تنقید کرنے سے پہلے درویش پہلی باتوں کی تحسین بیان کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے دوست سعید اظہر بہت محبت کرنے والے انسان تھے، ہم برسوں اکٹھے رہے، گھروں میں آنا جانا رہا، ایک معاصر میں بھی اکٹھے کام کیا، پھر ’’جنگ‘‘ میں بھی تقریباً اکٹھے ہی آئے۔

شامی صاحب سے قربت میں بھی یکجائی تھی، درویش کا اکثر اپنے استاذِ محترم سے اختلافِ رائے ہو جاتا ہے جسے وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں لیکن مولوی سعید اظہر تو اُن سے عقیدت میں شاید کہیں بڑھ چڑھ کر تھے، دفتر آتے تو اکثر یہ کہتے چلیں سر سے مل کر آتے ہیں، چائے میں بسکٹ بھگو کر کھانے کا بھی موصوف کا اپنا ہی دلچسپ انداز تھا۔

درویش جب اُنہیں علامہ کہہ کر مخاطب کرتا تو ناراض ہوتے کہ نہیں! مجھے مولوی ہی کہیں، جب عرض کی جاتی کہ علامہ صاحب مولوی تو میں ہوں، کہتے کہ اگر آپ بغیر داڑھی کے مولوی ہو سکتے ہیں تو میں اس داڑھی کے ساتھ مولوی کیوں نہیں کہلا سکتا؟

یہاں یہ وضاحت مناسب رہے گی کہ اپنی تمام تر ترقی پسندی کے باوجود وہ مذہب اور اس کی روایت کا خوب احترام کرتے تھے۔ جماعت پر ہلکی تنقید کر لیتے تھے لیکن اس کے نظریہ سے کوئی ایسی مخالفت نہیں رکھتے تھے۔ اندر سے اچھے خاصے ’’اسلامی‘‘ تھے جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور بھٹو سے اپنے تمام تر تعلق واسطے اور اپنائیت کے باوجود وہ مودودی صاحب کا ذکر ہمیشہ پورے احترام سے کرتے رہے۔

ناچیز نے اُن کے منہ سے کبھی مولانا مودودی نہیں سنا جب بھی اُن کا ذکر کیا تو بڑے احترام سے بولے ’’سید مودودی‘‘، اِس سے اُن کی مولانا سے اپنائیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی تمام تر عقیدت مندی کے باوجود انہوں نے کبھی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ درویش نے جب بھی بھٹو صاحب پر تنقید کی اور کڑی تنقید کی تو وہ کبھی لال پیلے نہیں ہوئے۔

البتہ محترمہ کے حوالے سے دونوں کی رگیں خوب مل جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ جب یہ کہا کہ بی بی مر کر بھی کئی زندوں سے بہتر ہے، تو بہت خوش ہوئے اور بولے افضال ریحان بی بی مری نہیں ہے، بی بی زندہ ہے اور ہمارے درمیان موجود ہے۔ میڈیا میں دیکھ لو، آج بھی اس کی باتیں یونہی چھپ رہی ہیں۔

اس طرح وہ بلاول بھٹو کو امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بہت بلندیوں تک پہنچا دیتے اور اس روا روی میں زرداری صاحب کی تعریفیں کرنا بھی نہ بھولتے بلکہ وہ زرداری صاحب پر اپنی کتاب بھی لانا چاہ رہے تھے۔ اس میں اندرونی میلان کے علاوہ دھڑے بندی کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا۔ میرے خیال میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ بی بی سے اب میرا تعلق ہی میری پہچان ہے اور میں اس کو زیادہ سے زیادہ پختہ کر جائوں۔

اُن کی بیماری کے دوران سید اسد گیلانی کی پوتی کے حوالے سے کالم دیکھا تو فون ملایا مگر جواب ملا کہ وہ تو اب بول بھی نہیں سکتے، تو پھر لکھ کیسے رہے ہیں؟ معلوم ہوا کہ اپنا کوٹہ پہلے سے لکھ رکھا ہے، وہی چل رہا ہے۔

اُن کی بیماری سے چند برس قبل اُن کے کسی عزیز کی وجہ سے ایک تنازع ہو گیا جو اتنا بڑھا کہ بول چال تک بند ہو گئی، اِس کے باوجود خورشید ندیم صاحب کے ایک پروگرام میں جہاں مختلف دانشور لبرل اور جدید اپروچ کے حوالے سے مباحثہ کر رہے تھے۔

اپنی باری پر جب انہوں نے اظہارِ خیال کیا تو لبرل اقدار کیلئے کاوشیں کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے درویش کا نام سرفہرست رکھا حالانکہ اُن دنوں تعلقات ختم ہو چکے تھے اور پھر ایک دن ’’جنگ‘‘ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سامنے دیکھا کہ مولوی صاحب آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُترتے آ رہے ہیں، پاس سے گزرنے لگا تو خلافِ توقع انہوں نے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ دیا، اس پر یوں لگا کہ جیسے سارا غصہ ہی ختم ہو گیا ہو۔

آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگا لیا اور اُنہوں نے بھی یہ کہتے ہوئے تمام گلے شکوے ختم کر دیے کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم پٹھان لوگ ہیں، کبھی کبھی پارہ زیادہ چڑھ جاتا ہے اس لئے جو بھی غلطی ہوئی ہے، اسے معاف کر دیں۔ تب یوں لگا کہ جیسے دو بھائیوں کے درمیان کوئی بات تھی ہی نہیں اور آج یہ ناچیز صاف دلی و صاف گوئی سے یہ اعترافِ عظمت کرتا ہے کہ وہ بہت پیارے انسان تھے، خداوند انہیں کروٹ کروٹ سکون دے۔ آمین!

درویش کے سسر چوہدری محمد طفیل کلو بھی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد پچھلے دنوں پروردگارِ عالم کے حضور پیش ہو گئے، انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کے ایک نوجوان سپاہی کی حیثیت سے سرتاج عزیز صاحب کے ساتھ مل کر بھرپور کام کیا۔

وہ اپنی اُن دنوں کی یادیں بڑے ولولے کے ساتھ سنایا کرتے تھے جنہیں تحریک پاکستان والوں نے چھاپا اور اعترافِ عظمت میں تب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ہاتھوں گولڈ میڈل بھی پہنایا۔ چوہدری صاحب کی پُرعزم بیٹی ڈاکٹر خلعت النسا نے اپنے والد کی زندگی بچانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور وہ حقِ خدمت ادا کیا جو صرف بیٹیاں ہی ادا کر سکتی ہیں لیکن ’کل نفس ذائقۃ الموت‘ کے تحت ہر ذی روح نے بالآخر یہ جہانِ رنگ و بو چھوڑ کر وہیں جانا ہے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آ سکتا؎

اے موت بُرا ہو تیرا تُو نے گھر نہ کوئی بھی چھوڑا

کسی آنکھ کا موتی چھینا، کسی ڈال سے پھول ہے توڑا

تازہ ترین