• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوورسیز پاکستانی، پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں جو ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ پاکستانی جہاں ایک طرف اپنے وطن کیلئے قیمتی زرمبادلہ بھیجنے کا ذریعہ بنتے ہیں وہاں دوسری طرف ان پاکستانیوں نے ہر قدرتی آفت میں اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے مگر آج بیرون ملک مقیم یہی پاکستانی شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ایسی صورتحال میں حکومت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے اور عدم تعاون سے شدید نالاں نظر آتے ہیں۔

یوں تو کورونا وائرس سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے لیکن اوورسیز پاکستانیوں کو اس وبا سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت 5.7ملین اور متحدہ عرب امارات میں 3.9ملین اوورسیز پاکستانی روزگار سے وابستہ ہیں۔ عالمی سطح پر گرتی ہوئی تیل کی قیمتوں، لاک ڈائون اور معاشی سست روی کے نتیجے میں خلیجی ممالک میں ہزاروں پاکستانی مزدور بیروزگار ہوچکے ہیں۔ صرف یو اے ای میں 60ہزار سے زائد پاکستانیوں کو اُن کی کمپنیوں نے اس برے وقت میں ملازمت سے فارغ کردیا ہے اور اب اُن کے پاس رہنے کیلئے بھی کوئی ٹھکانہ نہیں جس کے باعث وہ سڑکوں پر شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں اور پاکستانی سفارتخانے اور قونصلیٹ کے سامنے احتجاج کرکے اپنی وطن واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا ملکی معیشت میں کنٹری بیوشن سب سے زیادہ ہے۔ اِن پاکستانیوں نے زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے علاوہ ڈیم فنڈز میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار ترسیلات زر پر ہے۔ کورونا وائرس کی وبا سے قبل اوورسیز پاکستانی ہر سال 22ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر پاکستان بھیج رہے تھے جس میں سے تقریباً 50فیصد سے زائد ترسیلات زر خلیجی ممالک سے موصول ہورہی تھیں جن میں سعودی عرب اور یو اے ای سے آنے والی ترسیلات زر سرفہرست تھی۔ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر میں ہر سال اضافہ ہورہا تھا اور یہ خیال کیا جارہا تھا کہ چند ہی سالوں میں ترسیلات زر کا والیوم پاکستان کی ایکسپورٹ سے تجاوز کرجائے گا مگر موجودہ عالمی معاشی صورتحال میں ان ممالک سے ترسیلات زر میں رواں سال کمی متوقع ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی ترسیلات زر میں رواں سال 23فیصد کمی کی پیش گوئی کی ہے جس سے پاکستان کی معیشت شدید متاثر ہوگی۔

اوورسیز پاکستانی ہر سال 22ارب ڈالر ترسیلات زر اپنے وطن بھیجتے تھے مگر افسوس کہ حکومت نے کبھی اِن اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا، اسلئے جب یہ اوورسیز پاکستانی وطن واپس آئیں گے تو اُنکی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ان پاکستانیوں کی وطن واپسی یقینی بناتی مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی بلکہ ایسے برے وقت میں اوورسیز پاکستانیوں کو کئی گنا مہنگا ٹکٹ فروخت کرکے منافع کمایا جارہا ہے۔ دبئی جہاں سے پاکستان کا ریٹرن ٹکٹ 700درہم میں دستیاب ہوتا تھا، آج اوورسیز پاکستانیوں کو صرف ون وے ٹکٹ 2000درہم میں فروخت کیا جارہا ہے جبکہ اِن پاکستانی مزدوروں سے 48گھنٹے قرنطینہ میں رکھے جانے کے الگ اخراجات وصول کئے جارہے ہیں جو یہ مزدور دینے سے قاصر ہیں۔ اِسی طرح امریکہ سے پاکستان واپسی کا ریٹرن ٹکٹ جو ایک ہزار ڈالر میں دستیاب ہوتا تھا، آج اوورسیز پاکستانیوں سے صرف ون وے ٹکٹ کے 3ہزار ڈالر وصول کئے جارہے ہیں۔ موجودہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کا نعرہ لگاکر میدان میں آئی تھی اور یہ دعویٰ کرتی تھی کہ برسراقتدار آکر اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کئے جائیں گے۔ وزیراعظم پاکستان اور اُن کے وزرا و مشیروں کے بلند و بانگ دعوے اور دکھائے گئے خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے جبکہ اس برے وقت میں بھی حکومت اوورسیز پاکستانیوں کی مدد کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے اوورسیز پاکستانیوں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو کئی گنا مہنگی قیمت پر ٹکٹ فروخت کرنا اور قومی ایئرلائن کا صورتحال سے فائدہ اٹھانا مشکلات سے دوچار اوورسیز پاکستانیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ یہ اوورسیز پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ تصور کئے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کسی طور بھی مناسب نہیں جس کے وہ ہرگز مستحق نہیں۔ اِن پاکستانیوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ آناً فاناً سب کچھ تبدیل ہوجائے گا اور دینے والے ہاتھ لینے والے بن جائیں گے۔

حکومت کو چاہئے کہ جس طرح دوسرے ممالک کی حکومتیں بغیر کرایہ وصول کئے اپنے شہریوں کو وطن واپس لارہی ہیں اور امریکہ، کینیڈا کی حکومتیں اپنے شہریوں کو چارٹرڈ فلائٹس سے وطن واپس لارہی ہیں، اُسی طرح حکومت پاکستان بھی بیرون ملک پھنسے اوورسیز پاکستانیوں کی وطن واپسی یقینی بنائے۔ اِس سلسلے میں پاکستان ایئر فورس کی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے جو اپنے C-130 طیاروں کے ذریعے مختلف ممالک میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لاسکتی ہے۔ ساتھ ہی وزیراعظم، خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو فون کرکے درخواست کریں کہ اوورسیز پاکستانیوں جن کا اُن کے ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ہے، کو اِس برے وقت میں بیروزگار کرکے وطن واپس نہ بھیجا جائے تاکہ دینے والے ہاتھوں کو پھیلانے کی نوبت پیش نہ آسکے اور اُن کی خود داری مجروح نہ ہو۔

تازہ ترین