• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات کا ایک اہم مرحلہ مکمل ہوگیا۔
قومی اسمبلی کی 272/اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی577 عام نشستوں کے لئے کم و بیش دس ہزار امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے۔ اگلے سات دنوں میں پیچ در پیچ تفصیلات پر مشتمل فارم اور منسلکہ دستاویزات کی جانچ پڑتال ہوگی۔ مہم جویانہ للکار کا سا انداز اپنا لینے والے الیکشن کمیشن کا ہر اہل کار خنجر بدست نظر آتا ہے۔ ان کے لہجوں کا کھردرا پن کسی خاص ذہنی کیفیت کی عکاسی کر رہا ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن جناب افضل خان نے اعلان جاری کیا ہے کہ ”کاغذات کی جانچ پڑتال انتہائی بے رحمی سے ہوگی“۔ وہ چاہتے تو ”بے رحمی“ کے ناتراشیدہ لفظ کو نظر انداز کرکے اپنی بات کو موثر بنانے کا کوئی اور سلیقہ مند اسلوب بھی اختیار کرسکتے تھے لیکن یہ وہی طرز کلام ہے جو کمیشن کے دو معزز ارکان نے سیاستدانوں کو چور اچکے اور لٹیرے کہہ کر اختیار کیا تھا۔ سات دنوں پر محیط بے رحمانہ جانچ پڑتال کا یہ مرحلہ خاصا حساس ہے۔ اسی مرحلے میں آرٹیکل62/اور 63 کا میدان حشر بھی سجنا ہے، اسی مرحلے میں امانت و دیانت کا فیصلہ بھی ہونا ہے، اسی مرحلے میں جعلی ڈگریوں کا قصہ طے ہونا ہے، اسی مرحلے میں دیکھا جانا ہے کہ کون سرکاری واجبات کا نادہندہ ہے، کس نے قرضے ادا نہیں کئے اور کون ٹیکس چھپا رہا ہے، اسی مرحلے میں پرکھا جائے گا کہ کون سزا یافتہ ہے اور کون کسی اور وجہ سے اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہوسکتا۔ کئی چھلنیوں پر مشتمل اس مشین کے لئے اسٹیٹ بینک، نیب، ایف بی آر، نادرا اور ہائر ایجو کیشن کمیشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ اگلے سات دنوں میں واضح ہو جائے گا کہ کون آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت اہلیت کی شرائط پر پورا اترتا ہے اور کون آرٹیکل 63 کے تحت نااہلیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگرچہ آرٹیکل62 میں اہلیت کی تو شرائط بڑی وضاحت کے ساتھ بتا دی گئی ہیں اور آرٹیکل 63 میں ان چودہ نکات کا واضح ذکر کردیا گیا ہے جو کسی امیدوار کی اہلیت پر ضرب لگاتی ہیں لیکن اب کے ”کیڑا کار“ میڈیا نے ایک طوفان سا بپا کررکھا ہے اوربعض اوقات الیکشن کمیشن اس طوفان میں بے پتوار کی کشتی کی طرح ڈولتا نظر آتا ہے۔ سو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر کمیشن کی ساری توانائیاں صالحین اور فرشتے تلاش کرنے پہ مرکوز ہوگئیں تو کیسے کیسے گل کھلیں گے اور کیا کیا حشر بپا ہوں گے۔
سات دنوں کی اس چھان پھٹک کے نتیجے میں کچھ امیدوار نااہل قرار پائینگے، انہیں اگلے تین دنوں میں اپنی نااہلیت کیخلاف اپیل کرنے کی اجازت ہوگی۔ اہل قرار پانے والوں کیخلاف انکے سیاسی حریف اعتراضات داخل کراسکیں گے۔ 10/اپریل تک یہ مرحلہ بھی تمام ہو جائے گا۔ اگلے سات دنوں میں یہ اپیلیں نبٹا دی جائیں گی۔18/اپریل کو کاغذات نامزدگی واپس لئے جاسکیں گے۔19/اپریل کو امیدواروں کی حتمی فہرست سامنے آجائے گی۔
مجھے یکم اپریل سے شروع ہونے والا سات روزہ مرحلہ نہایت ہی اہم لگ رہا ہے۔ نئے قواعد و ضوابط کے تحت امیدواروں کے لئے لگائی جانے والی چھلنیاں خاصی باریک ہیں۔ اگر کوئی امیدوار درجن بھر چھلنیوں سے نکل بھی گیا تو اسے آرٹیکل62/اور 63 کی تیز دھار تلوار کا سامنا ہوگا۔ ان آرٹیکلز کے معنی و مفہوم کی تشریح میں الیکشن کمیشن یا ٹریبونلز کا کردار بڑا اہم ہوگا اور اگر معاملہ وہاں سے بھی آگے نکل کر اعلیٰ عدلیہ تک آگیا تو عدالتی تعبیر بہرحال حتمی ہوگی۔ آرٹیکل 62 کے بعض شقیں اپنے اندر جہان معنی سمیٹے ہوئے ہیں اور سارا انحصار اس بات پر ہے کہ کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ ان شقوں سے کیا معنی و مفہوم کشید کرتی ہیں۔
مثلاً آرٹیکل 62 کی ذیلی شق D کہتی ہے کہ ”وہ اچھے چال چلن اور کردار کا مالک ہو اور اس کی عمومی شہرت یہ نہ ہو کہ وہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے“۔ ذیلی شق E کہتی ہے …”وہ اسلامی تعلیمات سے اچھی طرح واقف ہو، ان تعلیمات پر عمل کرنے کو اپنے اوپر فرض خیال کرتا ہو جیسا کہ اسلام نے تلقین کی ہے اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہو“۔ اسی آرٹیکل کی شق F کہتی ہے ”وہ زیرک اور دانشمند ہو، راست باز (صادق) ہو، اوباش و عیاش نہ ہو، دیانتدار اور امین ہو“۔
آرٹیکل 62 کی ان شقوں میں دیئے گئے اوصاف یقیناً ایک اچھے مسلمان کی سیرت و کردار کا حصہ ہونے چاہئیں۔ ایسے ہی لوگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمینٹ میں بیٹھنے کا استحقاق رکھتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان اوصاف حمیدہ کی جانچ پرکھ کا پیمانہ کیا ہو؟ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ آرٹیکل62/اور 63 کا اطلاق کسی شخص کی مالی بدعنوانی، کرپشن، نادہندگی اور ناجائز دولت سے بنائے گئے اثاثوں تک محدود رہنا چاہئے اور اسے اس شخص کی ذاتی زندگی اور کردار تک نہیں پھیلا دینا چاہئے۔ اس نقطہ نظر کا حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیا جاسکتا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ بپھرا ہوا میڈیا، آتش زیرپا الیکشن کمیشن اور حشر بداماں عدلیہ اسے ماننے پر تیار ہوں گے۔ سو اگر مذکورہ بالا آئینی تقاضوں پر سختی (یا بے رحمی) کے ساتھ عملدرآمد ناگزیر ہے تو پھر سوچنا ہوگا کہ اس کے لئے کیا پیمانہ وضع کیا جائے اور امانت و دیانت کے لئے کونسی کسوٹی استعمال کی جائے جو کھوٹا کھرا واضح کردے۔
میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ آئیڈیلزم یعنی ”مثالیت پسندی“ ہموار انتخابی عمل کو غیر متوقع ناہمواریوں سے دوچار کرسکتی ہے۔ فرض کیجئے کہ سیاسی جماعتوں کے کسی سربراہ پر یہ تلوار چل جاتی ہے تو صورتحال کیا ہوگی۔ مثالیت پسندی کے خیمہٴ پارسا میں بیٹھے لوگ تو بڑی آسانی سے کہہ دیں گے کہ چاہے کوئی بھی آئین و قانون کی زد میں آتا ہے اسے انتخابات سے نکال باہر کرنا چاہئے لیکن عملاً یہ اتنا سہل بھی نہیں۔ قرضوں کی نادہندگی یا کسی مالی بدعنوانی کا تعین تو ٹھوس دستاویزات سے ہوسکتا ہے لیکن عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ نجی زندگی اور اخلاق و کردار کے حوالے سے نااہلیت ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہو سکے گی اور شاید اس نوع کا فتویٰ جار ی کردینا بھی آسان نہ ہو۔
الیکشن کمیشن کی ضرور تحسین ہونی چاہئے کہ وہ منصفانہ انتخابات کے لئے حتی المقدور کوشش کررہا ہے لیکن شاید ترجیحات کی درجہ بندی اب بھی درست نہیں۔ اہم تقرریوں اور تبادلوں کے حوالے سے اس کی کلغی خم ہوچکی ہے وہ سپریم کورٹ کے احکام کی پاسداری سے بھی عاجز رہا۔ بوجوہ ساری نگراں حکومتیں پی پی پی یا اس کے اتحادیوں کی یرغمال بن چکی ہیں۔ اسلام آباد کی وزراء کالونی میں بیٹھے کچھ سابق وزراء آج بھی اپنے گھروں میں دفتر سجائے بیٹھے ہیں، فائلیں ان تک جا رہی ہیں اور وہ کروڑوں کے ٹھیکے دے رہے ہیں۔ چاروں گورنر بدستور براجمان ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مانیٹرنگ ٹیمیں بن گئیں جو کیمرے لئے گردش کررہی ہیں لیکن ابھی تک پیمرا کو یہ حکم جاری نہیں ہوا کہ وہ ٹیلی ویژن چینلز پر چلنے والے کروڑوں روپے کے اشتہارات کا گوشوارہ مرتب کرے۔ ضابطہٴ اخلاق، بزرگانہ وعظ و تلقین کی حدوں سے آگے نہ بڑھ پایا۔
اللہ کرے چھلنی کاری کا یہ مرحلہ بخیر و خوبی گزر جائے۔ مجھے اس سے بڑے خدشات ہیں کہ ”مثالیت پسندی“ کا شجر کبھی کبھی بڑا کڑوا پھل دیتا ہے۔
تازہ ترین