• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے گپی کا نام سنا ہے؟ اگر نہیں سنا تو پھر آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آپ پاکستان میں کتنی بڑی شخصیت سے بے خبر ہیں! وہ پاکستان کا صدر نہیں ہے لیکن کچھ مخصوص معاملات میں اس کے پاس صدر والے اختیارات ہیں۔ وہ پاکستان کا وزیراعظم نہیں ہے لیکن اس کے پاس مخصوص معاملات میں وزیراعظم والے اختیارات ہیں۔ صوبہ پنجاب، صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں گپّی کا اتنا زیادہ عمل دخل نہیں ہے جتنا کہ صوبہ سندھ میں ہے۔ پیسے کے لین دین، زمینوں کی الاٹمنٹ، مالی اداروں سے متعلق شاید ہی سندھ حکومت کا کوئی اجلاس یا میٹنگ ہو جس میں گپّی نے شرکت نہ کی ہو۔ وزیر کیا چیز ہیں، وزیراعلیٰ سندھ بھی گپی کی موجودگی میں زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ گپّی کے اشارے پر پولیس اور مالی اداروں میں کام کرنے والے بڑے اور سینئر افسران کو تبادلے کے نام پر تتربتر کر دیا جاتا تھا۔ ان سب کا جرم ایک سا ہوتا تھا۔ وہ سب گپّی کے احکامات ماننے سے انکار کر دیتے تھے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ قائم علی شاہ کی حکومت گپّی کے اشاروں پر ناچتی تھی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں گپ مار رہا ہوں، ورنہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک غیر متعلقہ شخص حکومتی ایوانوں میں دندناتا پھرتا نظر آئے۔ میرے معتبر بھائیو اور بہنو! یہ سنی سنائی بات نہیں ہے، میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں۔ سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں یقینی تاثر تھا کہ سندھ حکومت کے سربراہ سید قائم علی شاہ نہیں بلکہ گپّی تھا، یہ تاثر بے بنیاد نہیں ہے۔ نگراں حکومت میں بھی گپّی کا وہی عمل دخل ہو گا جو سائیں قائم علی شاہ کے دور حکومت میں تھا۔ وہ اس لئے کہ گپّی کا ریموٹ کنٹرول جس شخص کے ہاتھ میں ہے اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ نگراں حکومتیں آنے سے گپّی کے معمول میں تل بھر کا فرق نہیں پڑے گا۔ میٹنگ چاہے کتنی ہی اہم ہو، گپّی کے پہنچنے سے پہلے شروع نہیں ہو سکتی۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ گپّی سنگاپور گیا ہوا تھا۔ اس کی غیر موجودگی میں زمین اور تعمیرات کی وزارت نے ایک اہم میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ کراچی میں ایک دو سو سال پرانی تاریخی عمارات کو گرا کر اس کی جگہ پندرہ منزلہ تجارتی عمارت بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تاریخی عمارت گرانے اور اسی جگہ تجارتی عمارت بنانے کی درخواست گپّی کے فرنٹ مین باکر نے دی تھی۔ فرنٹ مین وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کی ہیراپھیری اور پھڈے کے کاموں میں سامنے سامنے رہتا ہے اور آپ پس پردہ ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں۔ ایک لحاظ سے خود گپّی بھی لمبے ہاتھوں والے کا فرنٹ مین ہے۔ باکر نے فوراً سنگاپور میں گپّی کو فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ گپّی آگ بگولہ ہو گیا۔ اگلی فلائٹ سے آدھی رات کے وقت کراچی پہنچا۔ صبح ہوتے ہی وہ کئی بلڈوزر اور کرینیں لے کر جائے وقوعہ پر پہنچا۔ اپنی نگرانی میں شام ہونے سے پہلے گپّی نے دو سو سالہ تاریخی عمارت مسمار کروا دی، زمین بوس کروا دی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ دوسرے روز گپّی نے محکمہ کے سیکرٹری کو معطل کروا دیا۔ جوائنٹ سیکرٹری اور دو ڈپٹی سیکرٹریز کے دوسرے اداروں میں تبادلے کروا دیئے۔
ایک مرتبہ بندر روڈ سے گزرتے ہوئے گپّی کی نگاہ خالق دینا ہال پر پڑ گئی، اس نے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کو کہا۔ کمانڈو محافظوں کی فوج ظفر موج کے ہمراہ گپّی خالق دینا ہال میں داخل ہوا۔ کسی نے اس کے علم میں اضافہ کرنے کے لئے کہا ”سر! یہ عمارت ایک سو دس برس پرانی ہے“۔
گپّی نے ناگواری سے کہا ”اس شہر میں بڑے ہی نامعقول آدمی رہتے ہیں۔ پرائم لوکیشن پر ایک سو سالہ پرانی عمارت کھڑی ہے اور اسے گرا کر ایک میگا بلڈنگ بنانے کا کسی کو خیال نہیں آیا!“
کسی نے اسے بتایا ”سر! یہ تاریخی عمارت ہے۔ اسی عمارت میں مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی پر انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کا مقدمہ چلا تھا“۔
بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے گپّی نے کہا ”کل صبح میونسپل کارپوریشن، لینڈ ریونیو اور متعلقہ محکموں کے سربراہوں کو میرے پاس آنے کا کہہ دو، ٹھیک دوپہر کے بارہ بجے“۔
گپّی کا ریموٹ کنٹرول جس شخص کے ہاتھ میں ہے اس کو گپّی کے ارادے کی بھنک پڑ گئی۔ اس نے سیٹلائٹ فون پر گپّی سے رابطہ کیا اور کہا ”گپّی میرے بھائی! خالق دینا ہال سے دور رہو، اسی میں ہم دونوں کی عافیت ہے۔ کراچی کا پورا شہر تمہارے سامنے پڑا ہوا ہے، جو چاہو تم کر سکتے ہو“۔
گپّی کے ہاتھوں کراچی کی بپتاؤں کا کسی کے پاس ریکارڈ نہیں ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ کراچی میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی شاید ہی ایسی کوئی عمارت ہو جس میں گپّی کا عمل دخل نہ ہو۔ میں نے جب پہلی مرتبہ گپّی کو دیکھا تھا تب اسے دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا۔ مجھے یاد آ رہا تھا کہ لڑکپن میں گپّی اور میں نشاط اور ناز سینماؤں کے باہر ٹکٹ بلیک کیا کرتے تھے۔ ناز سینما کا نام جب رادھے ٹاکیز تھا تب وہاں دلیپ کمار اور نورجہاں کی فلم جگنو لگی تھی اور ہم نے بلیک میں ٹکٹ بیچ کر خوب موج مستی کی تھی۔ اسی طرح نشاط سینما میں جب راج کپور اور نرگس کی فلم برسات لگی تھی تب بھی ہم نے بلیک میں خوب ٹکٹیں بیچی تھیں۔ بلیک میں ٹکٹیں بیچتے بیچتے میں بلیک آؤٹ ہو گیا۔ کئی دہائیوں بعد جب میں نے گپّی کو دیکھا تو اسے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس عرصہ میں ارب پتی، کھرب پتی کیسے بن گیا تھا اور میں ملباری ہوٹل میں دس مرتبہ ابالی ہوئی چائے کی پتّی کیوں رہ گیا تھا۔ گپّی نے نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے اپنے نام کے آگے لفظ نگراں کا اضافہ کر دیا ہے۔ اب وہ نگراں گپّی کے نام سے نگراں حکومت کی نگرانی کرے گا۔
تازہ ترین