• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیرت اور صدمے سے کچھ دیر کے لیے مجھے اپنا دماغ مائوف ہوتا محسوس ہوا۔ میرا بھائی جیسا دوست کورونا کے سبب وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لے رہا تھا۔ نہ صرف وہ خود بلکہ اس کی ناسمجھی اور انٹرنیٹ پر سنی اور دیکھی جانے والی جھوٹی وڈیوز کے سبب اس نے اپنی بیوی کو بھی کورونا کا مریض بنا دیا تھا۔ چند دن قبل ہی تو جب میں اسے کورونا کی وبا سے احتیاط کا مشورہ دیتا تو وہ میرا مذاق اڑایا کرتا تھا۔

عارف ایک انتہائی خوشحال اور آسودہ حال زندگی کا مالک تھا، بہترین کاروبار اور بیوی اور ایک بیٹا اس کی زندگی کا کل اثاثہ تھے۔ میں کورونا کی وبا کے دوران اس کی ناسمجھی دیکھ کر ڈر سا جاتا تھا، نجانے کیوں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی وہ کورونا کو عالمی جھوٹ قرار دیتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامے بازی ہے، عالمی سازش ہے۔ کورونا نام کی کوئی بیماری ہی نہیں ہے، اس بیماری کے نام پر کچھ عالمی طاقتیں دنیا بھر کے عوام کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی سازش تیار کر رہی ہیں۔ اپنی باتوں کی دلیل کے لیے وہ مجھے سوشل میڈیا کی چند وڈیوز بھی واٹس اپ کے ذریعے بھجواتا رہتا۔ مجھے معلوم تھا یہ سب باتیں وہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جھوٹی سچی وڈیوز سے سن کر مجھ تک پہنچا رہا ہے۔ میں اس کے خیالات کی بھرپور مخالفت کرتا اور اسے احتیاط کرنے اور لاک ڈائون کے دن گھر پر احتیاط سے گزارنے کے مشورے دیتا رہا۔ حکومت کے سخت لاک ڈائون کے چند دن اس نے گھر میں گزارے اور پھر ایک دن اس نے بتایا کہ وہ بذریعہ سڑک لاہور اور پنجاب کے کئی شہروں میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے جارہا ہے اور ساتھ میں اہلیہ اور بیٹا بھی جارہے ہیں۔ لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ نہ مانا اور اگلے روز وہ بذریعہ کار کراچی سے لاہور کے لئے روانہ ہو گیا۔ چند دن بعد اس کا لاہور سے فون آیا۔ ایک بار پھر وہ کورونا کے دنوں میں میری احتیاط جسے وہ بزدلی کہتا تھا، کا مذاق اڑا رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا پنجاب میں کوئی خاص سختی نہیں ہے اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ بہترین دن گزار رہا ہے، ٹریفک بھی کم ہے لہٰذا بیوی اور بیٹے کے ساتھ وہ بھرپور انجوائے کررہا ہے۔ ہفتے بھر بعد اس نے واپس کراچی کی راہ لی، ایک دو دفعہ راستے سے ہی فون پر بات چیت بھی ہوئی۔ پھر وہ کراچی پہنچ گیا۔ چار دن قبل میری اس سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ راستے کی تھکن کی وجہ سے اسے اور اس کی اہلیہ کو بخار چڑھ گیا ہے، دوا لی ہے، امید ہے جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ میں نے بھی ازراہِ مذاق اسے کورونا ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا تو اس نے ایک بار پھر ہنس کر کہا یہ کونسی بیماری ہے، بات آئی گئی ہو گئی۔

گزشتہ روز اس کو فون کیا تو اس کے بھائی نے اٹھایا اور روتے ہوئے بتایا کہ بھائی صاحب کو کورونا ہو گیا ہے، تین روز قبل بھائی کو جب شدید بخار کے ساتھ سانس لینے میں تکلیف ہوئی تو انہیں اسپتال لیکر آئے تو حالت غیر ہونے کے باعث انہیں فوری طور پر وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا۔ علامات کے سبب ان کا فوری کورونا ٹیسٹ کیا گیا جو مثبت آیا۔ فوری طور پر بھابھی اور بھتیجے کا کورونا ٹیسٹ بھی کرایا تو بھابھی کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا لہٰذا انہیں بھی اسپتال داخل کرا دیا ہے جبکہ بھتیجے کو اللہ تعالیٰ نے کورونا سے بچا لیا لہٰذا اسے الگ گھر منتقل کر دیا ہے۔ مجھے رہ رہ کر عارف کے الفاظ یاد آرہے تھے کہ کورونا کوئی بیماری نہیں ہے، یہ دنیا بھر کے عوام کو کنٹرول کرنے کی عالمی سازش ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جن کی مائیں، جن کے باپ، جن کے بچے اس وبا سے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ان سے کوئی معلوم کرے کہ کورونا وائرس کیا ہے۔

میری حکومت سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے عوام کو کورونا سے ڈرائیں، احتیاط کرنے کی عادت ڈالیں، لوگوں کے دلوں سے کورونا کا خوف ختم نہ کریں، اگر یہ خوف ختم ہو گیا تو لوگ بہت تیزی سے کورونا کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ کاروبار بھی ضروری ہے جس کے لیے گھر سے نکلنا بھی ضروری ہے لیکن سب سے زیادہ ضروری چیز انسانی زندگی ہے لہٰذا پوری قوم سے درخواست ہے کہ خدارا! کورونا سے ڈریں، اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں، اللہ تعالیٰ اس وبائی دور کا پوری دنیا سے جلد سے جلد خاتمہ کر دے۔ آمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین