ہر الیکشن خوابوں کا موسم ہوتا ہے۔ محلے کے کو نسلر سے ملک و حکومت کے سربراہ تک،سارے ووٹرز خواب بُنتے ہیں مگر کچھ مقتدر تعبیر چُنتے ہیں۔ یہ دونوں ریل کی پٹڑی کے دو ایسے کنارے ہیں جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے صدیوں سے ہزاروں لاکھوں میلوں تک دوڑ رہے ہیں لیکن ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔آئیے پہلے اُن سے ملتے ہیں جنہیں آپ جانتے ہیں مگر پہچاننے میں اکثر غلطی کرتے ہیں۔
آرڈر اِن دِی ہاوٴس۔2013ء کی نئی اسمبلی کے منتخب ارکان سے درخواست ہے کہ وہ اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں ۔ وزیر فروغ ِ مہنگائی صاحب۔آپ کو مبارک ہو آپ پھر جیت گئے،کس طرف بیٹھیں گے، دائیں طرف یا بائیں طرف۔؟ کیونکہ پچھلی ٹَرم میں آپ دونوں طرف بیٹھ چکے ہیں بلکہ آخری ماہ میں آپ تیسری مرتبہ دائیں آ گئے تھے۔
جناب والیٰ ، میں اپنے اصولی موٴقف پر قائم ہوں آپ کے سامنے بیٹھنا اعزاز سمجھتا ہوں لیکن الیکشن کے بعد میں دائیں کی بجائے بائیں بیٹھوں گا۔
آرڈر اِن دِی ہاوٴس پلیز…وزیر وصولیات آپ کو مبار ک ہو،گزشتہ حکومت میں بھی آپ وزیر تھے آپ کی پارٹی الیکشن ہار گئی مگر آپ پھر وزیر بن گئے ہیں۔ آپ مبارکبادیں وصول کرنا بند کریں اور فلور کا احترام کریں۔
آرڈر…آرڈر
وزیر برائے فروغ ِ منشیات و اسلحہ جات آپ کی پیٹھ اسپیکر کی کرسی کی طرف ہے،آخر کیوں…؟
جناب عالی… مجھے آگے پیچھے بلکہ پیچھے زیادہ دیکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ میرے کام میں بڑے سیکورٹی رِسک ہیں اس لئے معافی چاہتا ہوں۔ وزیر داخلی انتشار و بدامنی اگر تشریف فرما ہوں تو وقفہٴ سوالات شروع کیا جائے…؟
یہ تو تھا آنے والے فلور کا ایک منظر۔ ایک اور جھلک دیکھئے جو تازہ ترین ہے۔ مسلسل شکست کے احساس اور غصے سے بپھرے ہوئے، معاشی طور پر غریب کلاس سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن بے بسی کی تصویر دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وہ جنہوں نے اقتدار کی ٹرین پر چڑھنے کے لئے لائن بنانے کے بجائے پھلانگ کر الیکشن کے ٹکٹ اُچک لئے ہیں ان میں وہ سارے شامل ہیں جو ہمیشہ اختیار کے ڈبے میں سفر کرتے ہیں اور اقتدار کا جھولا جھولتے ہیں ہر جانے والے کو بروقت چھوڑ دیتے ہیں جبکہ ہر آنے والے کو بروقت پکڑنے یعنی جوائن کرنے کے ماہر ہیں۔ سیاسی ورکر بیچارے کر ہی کیا سکتے ہیں؟ وعدوں کے پورے ہونے کا انتظار، مزید وعدوں کا انتظار یا پھر تنگ آ کر ایک عدد دھرنا، ایک عدد شاہراہ بند کرنا اور لنڈے کے ٹائر جلا کر ایک عدد احتجاجی مظاہرہ ۔ سیاسی ورکروں کے پاس اپنی قوت کے اظہار کا یہی طریقہ ہے جو ٹکٹ ٹرین کے گزر جانے کے بعد ملک کے سارے بڑے ٹکٹ گھروں کے باہر آزمایا جا رہا ہے۔ پچھلی ڈکٹیٹر شپ کا کو ئی معروف چہرہ ایسا نہیں ہے جس نے ڈکٹیٹر کے نو سال میں اس کے سارے اقدامات کی ترتیب، تشہیر اور آئین کی تسخیر کی واردات میں حصہ نہ لیا ہو۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان سب کو آنے والی جمہوریت کے بڑے ٹکٹ گھروں میں وہ پذیرائی ملی ہے جس سے ان سیاسی کارکنوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ہیں جو آمریت کے زمانے میں انہی چہروں کے ہاتھوں مار کھاتے آئے ہیں۔ یہ دونوں طبقات بقول اقبال ”نباتات و جمادات کی طرح“ اپنی اپنی تقدیر کے پابند ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں مار کھانے والے ہمیشہ مار کھاتے رہیں گے جبکہ مال کھانے والے ہمیشہ مال کھاتے رہیں گے۔
ایک اور سناریو ملاحظہ کیجئے ۔ مجھ سے احتشام بھائی اور مجاہد بریلوی نے سوال کیا کہ پاکستان کے اقتدار پر ہمیشہ جنرل بیٹھے رہیں گے؟ میں نے کہا، کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ اور ساتھ ہی پوچھا کہ اس جرنیل کا نام تو بتائیں جو اس وقت اقتدار میں ہے؟ یا پچھلے پانچ سال میں اقتدار پر قابض ہوا؟ تاکہ میں اس کی ماورائے آئین کارروائی کی مذمت کر سکوں۔ اب اقتدار سابق جج اور جرنلسٹ لے اڑے ہیں۔ اس لئے طاقت کا توازن ٹرپل ون برگیڈ سے جوڈیشل کمپلیکس اور پریس روم کی طرف ٹرانسفر ہو گیا ہے۔ اس منظر نامے کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت حاضر سروس عدلیہ اور پریس رپورٹر اپنا اصل کام کر رہے ہیں جبکہ پنشنر حضرات ڈبل پنشن کے استحقاق کو مجروح ہونے سے بچانے کی فکر میں ہیں۔
ایک اور سین جو دیکھنے کے قابل ہے وہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا ہے۔ شہر اقتدار کے ایک اور واقف حال نے بتایا کہ اسمبلیوں کے وہ امیدوار جنہوں نے گزشتہ پانچ سال میں یہ روٹین بنائے رکھی کہ پانچ دن محنت مشقت کی چونچ میں جتنے ہیرے موتی یہاں سے اکٹھے کئے، دو دن لگا کر انہیں دبئی پہنچایا۔ پاکستان کے سارے ایئرپورٹوں پر لگائے گئے ایف آئی اے کے پائسس سسٹم میں ان کے سیکڑوں فارن ٹرپس کی تصویری اور دستاویزی شہادتیں موجود ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ پہلے تو کیا انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں کہاں لکھا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک کے کتنے دورے کئے اور کیوں اور کس کام کے لئے کئے؟ ان دوروں پر کتنے اخراجات آئے؟ مجھے معلوم نہیں کہ الیکشن کا ریفری یہ معلومات نیب کے ذریعے حاصل کرے گا یا سارے ریٹرننگ افسران ایف آئی اے کے امیگریشن سیل سے یہ تفصیلات منگوائیں گے؟ لیکن اگر ایسے لو گوں کی اصل معاشی واردات نہ پکڑی گئی تو آئین کے آرٹیکل 62/اور 63برما کے مسلمانوں کی طرح خون کے آنسو بہاتے رہ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتخابی امیدواروں کے کاغذات کی اسکروٹنی کا حال وہی ہو گا جو دنیا کے کئی ممالک میں مسلم اقلیتوں کا ہو رہا ہے جبکہ ریفریوں کا رویہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ او آئی سی، رابطہ اسلامی یا اقوام متحدہ کا ہے۔
دو دن پہلے ایک تھنک ٹینک کے عشائیے میں مجھ سے یہ پوچھا گیا کہ پاکستان کی معیشت کو ڈاکیومنٹ کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے سامعین کو ڈارون کے نظریہ تخلیق اور ایڈم اسمتھ کے نظریہ معیشت کی بھول بھلیوں میں گھمانے کے بجائے سیدھا جواب دیا۔
اگر یہ ٹاسک ہر ضلع کی یونیورسٹی اور کالج کے لڑکے لڑکیوں کو دے دیا جائے کہ شہر کے انٹری پوائنٹ اور باہر جانے کے راستوں پر کمپیوٹر کے ذریعے گاڑی کے ہر مالک کا ریکارڈ جمع کریں پھر موقع پر گاڑی کے ہر مالک کو معمولی فیس لیکر نیشنل ٹیکس نمبر جاری کر دیں ۔ اسی طرح ہر ایئرپورٹ پر ایسے ہی لوگ بیٹھ کر ملک میں آنے اور جانے والوں کے کوائف لیں اور انہیں نیشنل ٹیکس نمبر جاری کریں تو وہ کروڑوں گاڑیاں اور لاکھوں مسافر جو ملک کی سڑکوں اور ہوائی اڈوں پر نظر آتے ہیں ”سوائے فقیروں کے“وہ اگلا قومی بجٹ بنانے کی رقم دو ماہ میں ادا کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کام ان کو دیا گیا جو ٹیکس کے نام پر جگا ٹیکس لینا زیادہ پسند کرتے ہیں تو پھر وہی ہو گا جو ہمیشہ سے ملک کے ٹیکس سسٹم کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ اگر کو ئی سیکھنا چاہے تو وہ پنجاب لو ک سجاگ کے طاہر مہدی سے سیکھ سکتا ہے جنہوں نے ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے سارے انتخابات 1970ء، 1971ء، 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء اور 2008ء کی تفصیلات کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ انہوں نے ان تین کتابوں کا ایک سیٹ مجھے بھجوایا۔ میں نے الیکشن امیدواروں ، حلقہ بندیوں ، امیدواروں کے کوائف کا ایسا جامع ریکارڈ پہلے کسی دستاویزی شکل میں کبھی نہیں دیکھا۔ اس سے انٹرنیٹ کے ذریعے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
اب آئیے ان مناظر کی طرف جو ابھی تک پس پردہ ریہرسل کے مرحلے میں ہیں ۔ اس لئے ان کے پردہ اسکرین پر آنے میں کچھ دیر باقی ہے۔ ویسے بھی چالیس روز ہوتے ہی کتنے ہیں؟ آپ چاہیں تو انتظار کر لیں اور چاہیں تو اشارے سمجھ لیں۔ ملک میں پہلے سے زیر سماعت تین عدد فوجداری ٹرائل سے بھی بہت بڑے ٹرائل کے لئے فائل ورک شروع ہے۔ آپ اسے فوجداری مقدمات کی ماں ”یعنی مدر آف آل دی کرمنل ٹرائلز“سمجھ لیجئے۔ بس ابھی مناسب مدعی کی تلاش کی جا رہی ہے تاکہ اس مقدمے کا حال ڈاکٹر طاہر القادری کی پٹیشن جیسا نہ ہو۔ یہ ٹرائل صرف کچھ ملزموں کی حد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ آنے والے ”ایامِ اختیارات“کے بڑے امیدوار اسے اپنا ٹرائل سمجھیں۔ اس ٹرائل کے ایک فریق نے مجھے بتایا کہ لوگ انور ابراہیم اور حسینہ واجد کے ٹربیونلوں کو بھول جائیں گے۔ پاکستان کی سیاست ایک ایسی دلدل یا کوئک سینڈ ہے جس میں سے نکلنے کا تجربہ خلد سے آدم کے نکلنے جیسا ہے۔یہاں مجھے پاکستان کی وزارت خارجہ اور انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی توجہ ان تین پاکستانی نژاد جرأت مند مگر انتہائی مظلوم پاکستانی خواتین کی طرف چاہئے۔ جن کے ساتھ لیبیا کے شہر بن غازی میں با وردی وار لارڈز نے وحشی جانوروں جیسا سلوک کیا۔ گوری اقلیت کو بلڈ ڈائمنڈز کی بوریاں دینے سے انکار کرنے والے افریقی فوجیوں کے ٹرائل کرنے والی اس عالمی عدالت کے لئے اگر انسانی توہین کا کو ئی ٹیسٹ کیس ہو سکتا ہے تو وہ ان خواتین کا مقدمہ ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کو چاہئے کہ وہ اس مقدمے کے ساتھ عافیہ صدیقی کے مقدمے جیسا سلوک نہ کرے ۔ انسانیت کی خدمت کے لئے گھر سے نکلنے والی ان ستم رسیدہ خواتین اور ان کے اہل خانہ کے زخموں پر مرہم بھی رکھا جائے اور انہیں عالمی فوجداری عدالت میں انصاف بھی دلایا جائے۔ پاکستان لیبیا سے ملزموں کی حوالگی کا مطالبہ بھی کرے۔