• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری دوست اور آج کی سب سے اہم خاتون ڈاکٹر ثانیہ نشتر، اندر سے بہت بھولی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جو لوگ نوکریوں سے فارغ ہوئے انہیں اس کا ثبوت دینا ہوگا۔ سبحان اللہ! کیا اچھا اعلان ہے۔ کبھی آپ نے کپڑے سے لیکر کریانے کی دکان یا ڈھابے پر جاکر پوچھا ہے کہ تمہیں نوکر رکھتے ہوئے مالک نے تمہارے ساتھ تحریری معاہدہ کیا تھا یا پھر نوکری سے جواب دینے پر تحریری اطلاع دی تھی؟ میری معصوم ڈاکٹر کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ بیشتر کھانوں اور چائے کے مراکز پر ادائیگی اول تو روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہے، دوسرے اس شرط پر کہ جو آرڈر لائو گے اس کے لئے ٹپ سے تم اپنا حصہ خود حاصل کرو گے، چاہے تم بال کاٹ رہے ہو، چاہے کھانا یا کولڈ ڈرنک دے رہے ہو۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ لکھا نہیں جاتا، مگر ملک بھر میں رائج ہے۔ اب بتائو عزیزی ڈاکٹر! آپ کی دریا دلی سے کون فیضیاب ہو سکے گا۔ فیکٹری میں کام کرنے والوں سے نجی ہوٹلوں پر کام کرنے والوں سے نمونے کے طور پر پوچھ ڈالو۔

ویسے مطلع میں آگئی ہے سخن گسترانہ بات، ورنہ لکھنے تو میں بیٹھی تھی اپنے خزانوں یعنی بیت المال، مزارات اور بینکوں سے کٹنے والی زکوٰۃ کے استعمال کے بارے میں کہ لکھتے ہوئے بھی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ مجھے چونکہ توفیق ہوئی ہے، تقریباً تمام مزارات کے پیشوائوں سے بات کرنے، خاموش کھڑے ہوکر مزار کے قریب بیٹھے شخص کو ہر عورت اور مرد سے مزار کو ہاتھ لگانے کا معاوضہ مٹھی میں بند کرکے لینے کا۔ پھر مزار پر چادریں چڑھانے والوں کا پہلے چادر خریدنے کا مرحلہ، آدھے گھنٹے بعد وہی چادر پھر بازار میں فروخت اور پھر دوبارہ خریداری۔ ارے یہ تو چھوٹے کام ہیں۔ ہر شام جو صندوقچی یا پھر تجوری کھلتی ہے اس کا کیا حساب کتاب ہوتا ہے۔ عطیات اور چیک کتنے نکلتے ہیں۔ کتنی دیگیں پوری کہہ کر آدھی دی جاتی ہیں، یہ تو سب کو معلوم ہے۔ بیت المال کے خرچ اور آمدن کا حساب تو ملازمین اور سربراہان خود ہی برابر کر لیتے ہیں۔ بینکوں سے زکوٰۃ کاٹنے سے ایک ہفتہ پہلے سے بینک سے رقم نکالنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بینک منیجرز سے ان تمام اصحاب کے بہت قریبی تعلقات ہو جاتے ہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ ویسے تو خیرات کرنے میں ہماری قوم دنیا بھر میں مشہور ہے مگر زکوٰۃ اور وہ بھی بینک کے ذریعے کٹوانے کے لئے بھلا لوگ کیوں مائل نہیں ہوتے۔ اول سبب تو یہ ہے کہ کسی کو بھی یقین نہیں ہوتا ہے کہ جو زکوٰۃ کاٹی جا رہی ہے وہ کیا یار لوگوں کی جیب میں جائے گی یا مستحقین تک پہنچانے کی بینظیر پروگرام کی طرح کوئی باقاعدہ فہرستیں ہیں۔ وہ فہرستیں بھی صائب نہ نکلیں، پھر وہی حرفِ حق کہ ہر شہر میں دس سے زیادہ کچی آبادیاں، اتنی ہی وہ آبادیاں ہیں جو روز کاغذ چن کر گھر کا چولھا جلاتی ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے علاوہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نام بھی کہیں رجسٹر نہیں ہیں۔ ہر شہر میں دہاڑی دار صرف مزدور ہی نہیں وہ بچے بھی ہیں جو دادو سے لیکر مری، گلیات اور شمالی علاقوں میں سامان اُٹھانے والے کیریئر کے طور پر روزی کماتے ہیں۔ یقیناً غربت اگر آدھی ملکی آبادی پر محیط ہے تو پھر اس کا مداوا خیرات، وظیفہ، صدقہ یا زکوٰۃ نہیں۔ انہیں فنی تربیت دیکر چاہے چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں کھپایا جائے، یہ اشد ضرورت اس لئے بھی ہے کہ اسد عمر نے خود کہا ہے کہ ہمارے یہاں تقریباً دس لاکھ لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں اور پھر جو لاکھوں لوگ غیر ممالک سے آرہے ہیں یہی وہ ہیں جو بینک کے ذریعے رقم بھجوایا کرتے تھے، ان کے اوپر پورے پورے خاندانوں کا بوجھ ہوتا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے بیٹے اور بھائی بھی اس آنے والی رقم کے اتنے عادی ہیں کہ بس جھگڑے کرتے، غنڈہ گردی کرتے اور گھر میں روٹیاں اور بوٹیاں مانگتے ہیں۔ کیا آپ نے قوم کو اس آزمائش کے لئے تیار کر لیا ہے۔ ابھی تو سرکار کے ہی بے نامی کاروں کے اسکینڈل سامنے آنے بند نہیں ہوئے ہیں۔

یہ جو رضاکار فورس ہے یہ تو بتائیں یہ رضاکار کیا اپنے پاس سے موٹر سائیکل کا پیٹرول خرچ کریں گے، کیا اپنی یونیفارم خود بنائیں گے۔ اس زمانے میں فروعی باتیں اور مفت رقم بانٹنے سے فائدہ کم اور بجٹ کے حوالے سے نقصان زیادہ ہوں گے۔ اب نیا بجٹ کیا ہوگا۔ سڑکیں نہیں بنیں گی، نئی صنعتیں نہیں لگائی جائیں گی۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں تو گزشتہ 73برس سے سب سے کم پیسہ رکھا جاتا ہے جس کا نتیجہ، ڈاکٹروں اور اسٹاف کی بیماری کی شکل میں کسی اور ملک میں ظاہر نہیں ہوا جتنا پاکستان میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ہماری برآمدات معکوس شکل میں ہیں۔ درآمدات کو پابندی کی ضرورت ہی نہیں کہ اسمگلنگ زندہ باد!

بیت المال اور مذہبی شعبہ میں کتنا پیسہ بجٹ میں دیا جاتا ہے، وہ کہاں خرچ ہوتا ہے، اس کے بارے میں پوچھنا تو کفر برابر ہے۔ البتہ ایک بات جو اتنے سارے سالوں میں سمجھ میں نہیں آئی کہ گٹکا ہو کہ چرس کہ آئس ہیروئن یا اسمگل شدہ شراب کی ہزاروں بوتلیں، آخر وہ جاتی کہاں ہیں۔ یہ تو معلوم ہے کہ آتی کہاں سے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ تحقیق کے مطابق 3ارب لوگوں کو صابن اور پانی کی سہولت دنیا بھر میں میسر نہیں ہے۔ ہمارے صحرائی علاقوں میں تو موجود کڑوے پانی کو میٹھا بنانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود، وہاں کے عوام کے دانت بچپن ہی سے پیلے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے محترم بلاول، ہرچند روز بتاتے رہیں کہ ہم نے میٹھے پانی کے لئے کیا کیا اقدامات کئے ہیں مگر نتیجہ کچھ اور نکلتا نظر آتا ہے۔ ہم اپنے ملک کے بارے میں کیا کہیں کہ یہاں تو نیب کو اللہ سلامت رکھے، بنا ثبوت لوگ تین تین سال سے قید میں ہیں۔ کیا عدالتوں کو اختیار نہیں کہ ایسی بلاجواز قید سے لوگوں کو نجات دلا سکے۔

تازہ ترین