• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری طرح شاید کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ایک طرف کورونا میں تیزی دوسری طرف لاک ڈائون میں نرمی اور مزید نرمی۔ وزیراعظم عمران خان نے کچھ دن پہلے فرمایا تھا کہ مئی کے مہینے میں وائرس کے پھیلائو میں مزید تیزی آ سکتی ہے، ماہرینِ طب نے بھی بار بار اس خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مئی سے کورونا وبا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ تعداد لاکھوں تک ہو سکتی ہے لیکن ان تمام خدشات کے باوجود لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان کیا گیا۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ طویل عرصہ تک لوگوں کو گھروں میں بند کرنا اور کاروبارِ زندگی کو جامد رکھنا ممکن نہیں لیکن لاک ڈائون تقریباً ختم کرنا اور لوگوں کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھی کوئی دانشمندی نہیں۔ ان دونوں مسائل سے نمٹنے کے لئے حکومت نے کیا پالیسی بنائی اور کیا منصوبہ بندی کی ہے، نہ تو کسی کو معلوم ہے نہ عوام کے سامنے لائی گئی ہے۔

حکومت نے جو ایس او پیز بتائے ہیں ان پر کوئی عمل نہیں ہو رہا۔ اب آگے کیا ہوگا یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے، بہرحال حکومت نے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیا ہے اب عوام جانیں اور کورونا جانے۔ جن ملکوں نے لاک ڈائون میں نرمی کی وہاں دوبارہ کورونا کے وار شروع ہو گئے ہیں جس کی چین اور کوریا تازہ مثالیں ہیں۔ پاکستان میں تو قرنطینہ مراکز کا جو حال ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ کے پی جہاں کورونا کے مریضوں اور اس سے اموات کی تعداد بہت زیادہ ہے وہاں بعض جگہوں پر انتظامیہ اور پولیس کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے وبا کے پھیلائو کو بریک لگ گئی ہے۔ ان میں مردان سر فہرست ہے جہاں کے ایک گائوں ’’منگا‘‘ میں یہ بیماری یکدم پھیلی، ایک موت بھی واقع ہوئی لیکن ڈپٹی کمشنر کے علاوہ ڈی پی او مردان سجاد خان کی دن رات کی کاوشوں کی وجہ سے کورونا کو بریک لگ گئی۔ مردان کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انتظامیہ کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں پر عملدرآمد کرانے پر ڈی پی او مردان کی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔ وبا کے شکار صوبہ کے پی میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کے بعض ذمہ داران بھی جامِ شہادت نوش کر گئے اور متعدد اب بھی متاثر ہیں۔ ان کے علاوہ پاک افغان طورخم بارڈر پر ڈیوٹی پہ مامور پاک فوج کے بہادر افسر میجر محمد اصغر نے بھی جامِ شہادت نوش کیا ہے، پوری قوم ان سب کو سلام پیش کرتی ہے۔

کورونا وبا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف اس سے اب تک تین لاکھ کے قریب اموات ہوئی ہیں جبکہ مریضوں کی تعداد بھی پنتالیس لاکھ کے قریب ہے۔ دوسری طرف معاشی بحران بھی آنیوالا ہے جس سے ترقی پذیر اور غریب ممالک خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ ایسے ممالک معاشی طور پر کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔ علاوہ ازیں خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔

کورونا کی وجہ سے امریکہ اور چین کے تعلقات بھی کچھ بہتر نہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں بھی کافی سرد مہری آ چکی ہے۔ سعودی عرب کے لئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ روس کے ساتھ بھی تیل بحران کے بعد تعلقات اچھے نہیں رہے، اس کے علاوہ بعض اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ افغانستان میں حالات بدستور خراب ہیں، دوحہ معاہدہ کے بعد طرفین کی جانب سے کچھ قیدیوں کو تو ایک دوسرے کے حوالے کیا گیا اور امریکہ نے کچھ فوجی بھی واپس بلائے لیکن اس معاہدہ پر من و عن عملدرآمد کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور مشرقی بارڈر کے علاوہ آزاد کشمیر میں بھارت کی طرف سے احمقانہ جارحیت اور دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھی مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ ان حالات میں بھی اپوزیشن بمقابلہ حکومت اور حکومت بمقابلہ اپوزیشن ملاکھڑے جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق میاں شہباز شریف کے لئے حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں اور عید سے پہلے یا بعد میں ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ جہانگیر ترین کی صلح کی بیل بھی منڈھے نہیں چڑھی، اب تک تو ان کوششوں میں کوئی کامیابی نہیں ہو سکی۔ عید کے بعد سیاسی گرما گرمی شروع ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ جہانگیر ترین کی پوزیشن بھی واضح ہو جائے۔ مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے مابین کافی دوری آ چکی ہے۔ عید کے بعد مذہبی جماعتیں خصوصاً جمعیت علمائے اسلام ایک تحریک شروع کر سکتی ہے جس کا مرکزی نقطہ بقول ذرائع وہ چھ وزرا ہوں گے جنہوں نے اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کی شمولیت کی حمایت کی تھی۔ بہرحال عید کے بعد سیاسی ماحول میں گرمی آ سکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے آئی پی پیز والوں کے بارے میں شور شرابہ بہت کیا جائے گا لیکن پھر مذاکرات کے نتیجے میں کھایا پیا ہضم اور آئندہ ایسا نہ کرنے کی تنبیہ پر معاملہ ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آنے والے بجٹ میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو مراعات دی جا سکتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ یہ بجٹ ملکی تاریخ کا مشکل ترین بجٹ ہوگا، اس میں عوام کے ساتھ کیا سلوک ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا۔ ایک ضروری نکتہ یہ ہے کہ اگر حکومت میڈیا کے ساتھ درگزر اور دوستانہ رویہ اپنا لے تو حکومت اور ملک و قوم کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، یہ موقع بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔

تازہ ترین