• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نگران وزیر اعظم جسٹس ریٹائرڈ میرہزار خان کھوسو کے خلاف واحد ووٹ مرکزی الیکشن کمیشن میں پنجاب کے نمائندے جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کا تھا۔ کیانی صاحب فرماتے ہیں میرے اختلاف کی وجہ جسٹس کھوسوکی طویل عمری ہے۔مگردماغ کا چست اور صحت مند ہونا سب پر بھاری ہوتا ہے ۔ میر ہزار خان کھوسو اور فخرو بھائی جس حاضر دماغی سے پریس کانفرنسوں سے خطاب کر رہے ہیں اس دیکھ کر میری اپنی رائے یہ ہے طویل العمری کسی طور ان کے فرائض منصبی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم واجپائی80پلس تھے، شوگر کے مریض بھی تھے مگر ذہنی چستی ایسی کہ وزارت عظمیٰ کی ٹرم بھی بھرپور انجوائے کی۔ ملک معراج خالد نگران وزیر اعظم بنے تو ان کی عمر بھی لگ بھگ اتنی ہی تھی۔ کیانی صاحب کا منصب بھی کسی کم اہلیت کا طلبگار نہیں مگرباخبر لکھاریوں کی رائے ہے جج صاحب کے تحفظات اپنی جگہ مگر ان کا عندیہ کسی کو پیغام دینا تھا۔ یہ سب لفظوں کے گورکھ دھندے ہیں ہیں ورنہ سیدھا سادہ سچ تو یہ ہے کہ کمیشن کے ممبران کی اکثریت نے بہت عاقلانہ اورمفاہمانہ فیصلہ کیا ہے ۔ بلوچستان رقبے میں بڑا اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ قبائلی سردار امیرترین اور بلوچستان کے عوام غریب ترین ہیں۔ بھارت، امریکہ، افغانستان سمیت کئی ممالک کی مداخلت اور عوام کی محرومی ، غربت اور مقتدر لوگوں کی حرص و ہوس نے نسلی ،قبائلی ،گروہی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم نے اس خطے کو جنگ و جدل کا میدان بنا رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم بنا کر بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کی ایک بہترین کاوش ہے جسے سراہا جانا چاہئے مگر کچھ عاقبت نا اندیش اس مفاہمانہ فیصلے کو متنازع بنا رہے ہیں۔ اسی فیصلے کا اعجاز ہے قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل دبئی سے پاکستان آ کر الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر رہے ہیں جو ایک اچھا شگون ہے ۔ خارزار سیاست کے خوشہ چینوں سے میری استدعا ہے ہر بال کی کھال اتارنا ذہانت کی دلیل نہیں،کبھی کبھی بال کو کھال سمیت تنہا بھی چھوڑ دینا چاہئے ۔میری سیاست پر شب و روز فلسفہ بگھارنے والے، دیدہ وروں سے گزارش ہے الیکشن کا دن حسب روایت سو کر نہ گزاریں، اپنا ووٹ ڈالنے ضرور جائیں اور حسب خواہش تبدیلی لانے کی کوشش کریں ۔کالم نگار، تبصرہ نگار اور اینکر پرسن الیکشن کے نتائج کی شفافیت کی خواہش ضرور رکھیں مگر ملک ٹوٹنے کی پیشگوئیوں سے پرہیز کریں۔سیاستدانوں کو بھی یہ وتیرہ خاکم بدہن کہ اگر مجھے اقتدار نہ ملا تو ملک ٹوٹ جائے گا، بدلنا ہو گا۔کوئی ملک سے اٹوٹ نہیں ہوتا ملک سب سے اٹوٹ ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں موروثی سیاسی کلچر کی وجہ سے چند ا فراد اجتماعیت پر غالب ہیں اور شخصی حکمرانی کو عوام کے نام سے کرنے کا گُر جانتے ہیں بہر طور اقتدار پر براجمان رہنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور دعویدار ہیں اگر انہیں اقتدار نہ ملا تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ میں ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں 66سالوں میں ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھے بلکہ ایک معکوس سفر شروع ہو چکاہے ۔حکمرانوں نے عام آدمی کو اس قدر دل برداشتہ کر دیا ہے کہ وہ خودکشیوں پر اتر آئے ہیں مگرحکمران اپنی بے ڈھنگی چال میں کوئی تبدیلی کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اپنی رائے پر آج بھی قائم ہیں خاکم بدہن اگر مجھے اقتدار نہ ملا تو ملک ٹوٹ جائے گا جبکہ دنیا کے باخبر مفکرین کی رائے ہے کچھ بھی ہو جائے پاکستان قائم رہے گا اور چلتا رہے گا۔ آج پاکستانی معاشرہ اسلحہ کے ڈھیر پر بیٹھا ہے ۔ اسلحے کی فراوانی نے ملکی معاملات اور قوم کی کیمسٹری ایسی بنا دی ہے کوئی اور ملک اس پر بلاواسطہ قبضہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ البتہ کالونی ازم کی نئی شکل و صورت اس پر غالب ہے یہی وجہ ہے کہ خفیہ والوں کے تھینک ٹینکس نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے سا لمیت کو خطرہ اندرونی ہے بیرونی نہیں۔ مگر میرا تجزیہ، یہ ہے بلوچستان کو اندرونی بیرونی دونوں اطراف سے حقیقی خطرہ ہے ۔بڑا رقبہ ،کم آبادی اور زیر زمین اثاثہ جات کی بھرمار، سارے لوازمات چوروں ڈاکوؤں کی دلچسپی کے سامان ہیں۔ یہ وقت تعلیم اور ٹیکنالوجی کا ہے تعلیمی اداروں کا ہے مگر ہمارے حکمران تعلیمی اداروں کے بجائے فارم ہاؤسز بناتے رہے اور عوام انہیں خوش کرنے کیلئے زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے ۔یاد رکھیں بلوچستان میں بیرونی عناصر سے سا لمیت کی جنگ جاری ہے، ملک کے اندر سے بھی ان بیرونی عناصر کو حمایت حاصل ہے۔ اس لئے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو ہوشیار رہنا ہو گا۔
اب آتے ہیں شفاف الیکشن کی طرف تو محترم قارئین ہمارے منظر نامے میں شفاف الیکشن کی خواہش تو کی جا سکتی ہے مگراس حقیقی امکانات صفر ہیں ۔ جب تک جاگیردار اور جاگیرداری نظام موجود ہے، عوام کے حقیقی نمائندوں کی پارلیمینٹ تک پہنچ ممکن نہیں۔ پہلی بارایوب خان نے جاگیرداروں کا راستہ، ایبڈو کے زور پر روکنے کی کوشش کی۔ جو جاگیردار( ایبڈو)کی زد میں آئے ان کی اکثریت نے ایوب خان کی طرف کھلنے والے دروازے کھول لئے جن کو رسائی نہ مل سکی ان کی اولادیں پارلیمینٹ میں پہنچ گئیں اور وہ پس پشت بیٹھ کر ڈوریں ہلاتے رہے۔ ایوب خان کو احساس ہو گیا یہ جاگیردار بڑے کارُو ہیں اس نے فیصلہ کیا بہتر ہے کہ ا نہیں ساتھ لے کر اپنا اقتدار مضبوط کرلیا جائے۔بعد میں آنے والے جرنیلوں نے بھی پابندیوں کے جال پھینکے مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا، پابندیوں کے حوالے سے ان کا دامن خالی ہے لہٰذا وہ ایوب خان سے متفق نظر آئے۔ اب جرنیلوں کا یہ عالم ہے کہ وہ خود ان جاگیرداروں کی زد میں ہیں ،تو جوڈیشری اور الیکشن کمیشن کے کچے دھاگوں سے بنے جال ان کے سامنے کیا ٹھہریں گے۔ جعلی ڈگریوں کے معاملے سے الیکشن کمیشن پہلو بدلتا نظر آتا ہے، ورنہ 2008ء کے الیکشن میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی جس میں گریجویٹ ہونے کا بھی حلف ہے ثابت شدہ جھوٹ ہے۔کیا ایسے امیدوار جن کا جھوٹ ثابت شدہ ہو آئین کی شق62/63پر پورا اترتے ہیں۔ یہ معاملہ ایک آدھ رکن اسمبلی کا نہیں170 سے190تک تعداد ہے ۔جعلی ڈگری پر نااہل ہونے والوں کے متعلق فرض کرنا ہوگا وہ ممبر اسمبلی نہیں تھے۔ نااہل ممبران کی موجودگی میں اسمبلی نامکمل تصورہو گی ۔نا مکمل اسمبلی کی پاس شدہ ترمیمات خود بخود کالعدم متصور ہوں گی ۔صدر کا الیکشن اور اس کا استثنیٰ بھی ختم متصور ہو گا ۔رولز آف بزنس ، فنانشل معاملات ،سینیٹ کے الیکشن سب کالعدم متصور ہوں گے ۔سب کچھ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور سپریم کورٹ کو قانونی فیصلہ دینا ہو گا ۔2002ء کے الیکشن میں بھی یہ جعلی ڈگریوں والے تھے۔ ایک ایسا پنڈورا بکس کھل جائے گا جسے بند کرنے کا شاید کوئی راستہ نہ مل سکے۔ یہی وجہ ہے ہر ادارہ پہلو تہی کر رہا ہے ۔ الیکشن ملتوی کرنا ہوں گے۔ جس کا بوجھ شاید نہ الیکشن کمیشن اٹھانا چاہتاہے اور نہ ہی سپریم کورٹ ۔ بنک ڈیفالٹرز اور ٹیکس ڈیفالٹرز کے معاملات کی چھان بین اور عدالتی معاملات کیلئے دن نہیں سالوں درکار ہیں ۔میں آخر میں الیکشن کمیشن کے صرف اتنا گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ لمبے چکروں میں الجھنے کے بجائے صرف ہاؤس ٹیکس تک ہی معاملات چیک کرلیں جو دنوں کا معاملہ ہے تو شاید ایک بھی وننگ ہارس ہاؤس ٹیکس کی رسید نہ پیش کر سکے۔ ایکسائز انسپکٹر کی کیا جرأت ہے جو ان کے گھر پر دستک دے ۔معروضی حالات میں الیکشن کتنے بھی شفاف ہوں جیت جاگیرداری کی ہو گی ۔ یہ 1987ء کی بات ہے مصطفی کھر جو قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے جیتے تھے کی خالی کردہ سیٹ پر مظفر گڑھ سے غلام مصطفیٰ جتوئی امیدوار تھے۔ مدمقابل پی پی پی کے نواب گُورمانی تھے۔ میرے ایک یونیورسٹی کے دوست جو ایک کالج میں پروفیسر ہیں سے ملاقات ہوئی ۔موصوف پی پی پی کے حامی ہیں، چھوٹتے ہی چلّائے یار یہ جاگیردار یعنی جتوئی ہارنا چاہئے، میں ہنس پڑا پھر پوچھا نواب گورمانی مظفر گڑھ کے کس چوک میں ریڑھی لگاتے ہیں ۔بھائی جو بھی جیتے گا جاگیردار ہی جیتے گا۔ میری آج بھی وہی بات ہے جو بھی جیتے گا جاگیردار ہی جیتے گا، وہی حکمران بنیں گے جو نہ قوم کے ہم حال ہیں اور نہ قوم کے ہم خیال ۔
تازہ ترین