• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نون لیگ کے رہنما رانا مشہود نے کہا ہے کہ عمران خان پہلے شہباز شریف کے” پٹھوں “سے مقابلہ کریں۔ بے شک جب تک شہباز شریف وزیر اعلی تھے ان کے پٹھے خاصے مضبو ط تھے ۔مگر اس وقت ان کے پٹھوں کی طاقت کے متعلق کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی ۔کہتے ہیں کہ پٹھوں کی طاقت کم ہونے سے ہاتھ پاؤں کمزور ہوجاتے ہیں ان کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے ۔ایسی صورت میں قبل از وقت موت کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں ۔شہباز شریف کے پٹھوں کی کمزوری کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے میانوالی سے عمران خان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا یقینا یہ ارادہ انہیں پٹھوں کی کمزوری کی وجہ سے کرنا پڑا کیونکہ میانوالی میں کوئی مضبوط پٹھا انہیں ایسا نہیں دکھائی دے رہا جو عمران خان کا مقابلہ کر سکے ۔سب پٹھے کھانے والے پٹھے ہیں۔ پرندوں کے پٹھوں کی اڑانیں جاری ہے۔ کوئی پیپلز پارٹی کی شاخ سے اٹھ کرنون لیگ کی شاخ پر بیٹھ رہا ہے تو کوئی نون لیگ کی ٹہنی چھوڑ کر تحریکِ انصاف کے درخت پر اپنا گھونسلہ بنا رہا ہے۔یہ خانہ بدوش پٹھوں کی پرواز کے دن ہیں ۔مگر لوگ جسے پرواز کی رت سمجھتے ہیں وہی پرندوں کی گرفتاری کا موسم ہوتا ہے ۔مختلف نسلوں کے پٹھے ایک ہی شجر پر دیکھ کر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
کئی الو کے پٹھے ہیں کئی ہیں باز کے پٹھے
کئی میدان میں آئے نئے انداز کے پٹھے
اکٹھی ہو گئیں کیسے سیاست کے اکھاڑے میں
کئی چیلوں کی اولادیں کئی شہباز کے پٹھے
الو کے پٹھے سے یاد آیا کہ ایک آدمی اپنے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔اس کے پاس ہی اْس کا بچہ کھلونا ٹرین سے کھیل رہا تھا بچہ ٹرین کو چابی دے کر چھوڑ دیتا تھااور جب ٹرین ایک دائرہ مکمل کرتی تو اسے انگلی سے روک کر کہتا: ”سٹیشن آگیا ہے جس الو کے پٹھے کو اْترنا ہے۔اْتر جائے۔۔۔۔“ بچے نے دو تین مرتبہ جب یہی جملہ دہرایا تو باپ نے سوچا کہ بچہ غلط بات سیکھ رہاہے لہذا اس نے ٹرین اْٹھا لی تقریباً آدھا گھنٹہ بچہ معصوم بن کر بیٹھا رہا آخر باپ کو ترس آ گیا اس نے بچے کو ٹرین دے دی اور کہا:”اب پہلے والی غلطی مت کرنا۔۔۔۔۔بچے نے ٹرین کو چابی دی۔جب گاڑی نے چکر مکمل کیا تو گاڑی روک کر بچے نے کہا”جس الو کے پٹھے کو اْترنا ہے ،اتر جائے۔پہلے ہی ایک الو کے پٹھے کی وجہ سے گاڑی تیس منٹ لیٹ ہے“۔
مجھے اس وقت آصف زرداری اسی بچے کی مثال لگ رہے ہیں سناہے ان کے پٹھے بھی خاصے کمزور ہو چکے ہیں ۔ان کے اصلی پٹھے بلاول بھٹو تو ناراض ہو کر انگلینڈ چلے گئے ہیں ۔اگرچہ انہوں نے اپنے پٹھے مضبوط کرنے کیلئے زر کا بہت کشتہ کھایا ہے اس سے کچھ فائدہ ہوا یا نہیں اس کا اندازہ تو انتخابات کے بعد ہوگاابھی تو پٹھے درست کام کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے ۔نواز شریف کی پٹھی مریم کلثوم کا رویہ بھی بلاول بھٹو سے ملتا جلتا ہے انہوں نے بھی الیکشن لڑنے سے انکار کردیا ہے کہ جب تک نون لیگ میں پارٹی الیکشن نہیں ہوں گے وہ اس وقت تک الیکشن نہیں لڑیں گی۔
جہاں میں رہتا ہوں وہاں الو کو ایک نہایت دانش مند پرندہ سمجھا جاتا ہے جسے اندھیروں میں دیکھ لینے کی بصارت عطاہوئی ہے ۔سو مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں الو کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے ۔اور وہ مصرعہ غلط ثابت ہو رہا ہے کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے ۔پاکستان میں توالو کے پٹھے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ حیوانات و پرندہ جات اس نسل کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کرے اور اگر کوئی آئینی رکاوٹ ہے تو فوری طور پر عدالت عالیہ کی طرف رجوع کرے۔اگر شہروں میں اس نسل کا رہنا دشوار ہوچکا ہے تو میرا خیال میں الو کا نام بدل کر شاہین یا شہباز رکھ دیا جائے ۔بلاول بھٹو کی صورت میں نام بدلنے کی روایت تو ہمارے پاس ہے ہی۔ اس طرح دو فائدے ہوں گے ایک تو یہ معدوم ہوتی ہوئی نسل محفوظ ہو جائے گی اور دوسراتصور ِ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کے مشورہ پر بھی عمل کیا جاسکے گاکہ اس نسل کو بسیرے کیلئے پہاڑوں کی چٹانوں پر بھیج دیا جائے ۔مگر ایک یہ مسئلہ ہے کہ اگر یہ پٹھے لوٹے ثابت ہوئے تو پہاڑوں کی چٹانوں پر بہت مشکل کا سامنا ہوگاکہ گندگی کی نکاسی کے انتظامات کی ضرورت ہوگی اور اس عمر میں فخرو بھیاکیلئے اور مسائل پیدا ہوجائیں گے۔کسی زمانے میں الو کے پٹھے رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے تھے۔ لگتا ہے آج کل” دیارِ شر اور زر “میں یہ کام فاختہ کے پروں سے لیا جا رہا ہے اور صورت حال یہاں تک آپہنچی ہے کہ
بدلی رتوں کو دیکھ کے اس سرخ سا نشاں
ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا
تازہ ترین