• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ایک بڑا خوبصورت اور تاریخی شہر تھا۔ کبھی تہذیب و تمدن کے حوالے سے اس کے چرچے تھے، اس کی ثقافتی روایات، کھانے، تاریخی عمارتیں، دروازے، چھوٹی اینٹ کے مکانات، باغات، اکھاڑے، مقبرے، علم و فنون اور ادب کے گہوارے غرض ہر چیز تباہ ہو گئی۔ اصل لاہور بارہ دروازوں اور تیرہویں موری (دروازہ) کے اندر تھا، اس کے اردگرد کم و بیش ڈھائی سو سے زائد دیہات تھے جو آج تمام کے تمام شہری آبادیوں میں شامل ہو چکے ہیں اور اپنا مخصوص فن اور تہذیب کبھی کی کھو چکے ہیں۔ وہ لاہور جس کی ہر گلی اور محلہ ایک تاریخ رکھتے تھے آج قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ قدیم لاہور کی ہر گلی سے اس کی اپنی ایک مخصوص خوشبو آتی تھی، آج ہر گلی اور محلے میں بدبو کا راج ہے۔

پچھلے کئی ہفتوں سے کورونا کورونا سنتے سنتے ہر کسی کے کان پک چکے ہیں۔ لوگوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ کورونا اللہ تعالیٰ سے معافی اور اپنے گناہوں سے توبہ مانگنے پر رفع ہو گا۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جب ہمارے شہروں کا ماحول اور غذا، ادویات اور رشتے خالص تھے تو ہر بیماری اور مشکل ہم سے دور تھی۔ آج خوراک، رشتے دونوں میں ملاوٹ ہو گئی ہے۔ پہلے انسان اپنوں سے خود ہی دور ہو گیا تھا۔ آج کورونا وائرس نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے دور کر دیا ہے۔

خیر ذکر ہو رہا تھا کہ لاہور آج سے پچاس، سو برس پہلے کیا تھا اور اب کیا ہو گیا ہے؟ لاہور کے بارے میں ہم کبھی کبھار سینیٹر ڈاکٹر آصف سعید کرمانی اور پروفیسر ممتاز حسن (ستارۂ امتیاز، مقیم کینیڈا) سے فون پر گھنٹوں بات کرتے ہیں، دونوں کا تعلق لاہور سے کئی نسلوں کا ہے اور لاہور کی بربادی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اس شہر کی سب سے بڑی یہ خوبی تھی کہ یہاں کسی زمانے میں انتہائی خالص خوراک ملا کرتی تھی اور پھر ان کھانے پینے کی چیزوں میں مخصوص خوشبو اور ذائقہ ہوتا تھا۔ اندرونِ شہر ہر دروازہ کسی نہ کسی خاص چیز کے لئے مشہور تھا مثلاً بھاٹی دروازے میں کبھی گوٹا کا حلوہ پوری اور بھا کالے کی دودھ لسی کی دکان مشہور تھی۔ آج پتا نہیں وہ کہاں گئے۔ پھر اس کا بازار حکیماں، جہاں کئی حکیم بیٹھا کرتے تھے، اس بازار میں کبھی علامہ اقبال چیف منزل میں قیام پذیر رہے اور یہیں سے انہوں نے شاعری کا آغاز کیا۔ یہ مکان آج بھی موجود ہے مگر تاحال اس کو قومی ورثے میں شامل نہیں کیا گیا۔ سوائے ایک تختی کے جو اس کے پرانے مکینوں نے لگا رکھی ہے۔ بازار حکیماں سے آگے چلے جائیں تو بازار حُسن آ جاتا ہے۔ بھاٹی گیٹ نے کئی نامور ادیب، شاعر، گلوکار، اداکار اور ڈاکٹر پیدا کئے۔ مثلاً نامور گلوکار محمد رفیع، اداکار اسماعیل، حکیم احمد شجاع، ڈاکٹر فرید احمد خاں، ڈاکٹر غیاث النبی طیب، ڈاکٹر بشریٰ متین اور کئی دیگر۔ یہاں گوٹے کی حلوہ پوری کی دکان پر ایسے رش ہوتا تھا جیسے حلوہ پوری مفت مل رہی ہو۔ یہ تمام دروازے آپس میں گلیوں سے ملے ہوئے ہیں۔ آپ بھاٹی دروازے سے داخل ہوں تو شیرانوالہ دروازے تک پہنچ سکتے ہیں۔

کبھی لوہاری دروازے پر نواب کباب فروش کی دکان ہوتی تھی۔ اس جیسے کباب آج تک کوئی نہیں بنا سکا۔ اب وہ بھی کہیں کھو گیا۔ بھاٹی دروازے سے آگے موری گیٹ کے باہر کبھی راوی کے کھگے ملا کرتے تھے۔ یہ ایک مخصوص موسم میں آتے تھے، دکاندار باقاعدہ اونچی اونچی آواز میں کہتے تھے کہ ’’راوی دے کھگے آ گئے‘‘ لوہاری دروازے کے شروع میں ایک ہوٹل نعمت کدہ ہوتا تھا۔ جس نے لاہور میں پہلی مرتبہ چرغہ متعارف کرایا۔ سرِشام لوگ چرغہ لینے وہاں ہجوم کی صورت میں اکٹھے ہو جاتے تھے۔ کیا مزہ تھا اس چرغے کا۔ اس دروازے میں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کا بھی گھر ہوتا تھا۔ یہاں ایک نامور حکیم محمد حسین اور احمد بخش جراح کے مطب تھے جہاں سے ہزاروں لوگوں کو شفا ملی، اس زمانے میں آدھے لاہور کے بچوں کے ختنے احمد بخش جراح نے ہی کئے تھے۔ بھاٹی دروازے کے باہر کبھی ملک تھیٹر، نگار اور پیرا مائونٹ سینما ہوتے تھے، میٹھے اور گلابی دودھ اور لال شربت کی دکانیں ہوتی تھیں۔ اس علاقے کے نزدیک ہی حضرت علی ہجویریؒ کا مزار مبارک بھی ہے۔ اندرونِ شہر کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ ہر جگہ بہترین تلوں والے کلچوں کی دکانیں ضرور ہوتی تھیں، آج بھی ہیں مگر اب وہ کلچے پہلے جیسے نہیں، ان کا مزہ اب وہ نہیں رہا۔ اندرونِ شہر رشتے اور خوراک دونوں خالص ہوتے تھے۔ اب وہاں نہ رشتے خالص رہے نہ خوراک۔

زمانے کی ترقی نے خوراک بے مزہ اور رشتوں سے پیار چھین لیا ہے۔ اندرونِ شہر کسی گھر میں کسی روز کھانا زیادہ بن جاتا یا کوئی بہت اچھی چیز بن جاتی تھی تو ہمسائے کو ضرور بھیجی جاتی تھی اب تو لوگوں کو اپنا کھانا پورا نہیں ملتا۔ انہوں نے ہمسایوں کو کیا بھیجنا؟ بھاٹی دروازے کے باہر تانگوں کا اڈہ ہوتا تھا۔ جہاں سے اسٹیشن تک کے تانگے ملا کرتے تھے۔ سواریوں کا تانگہ چار آنے میں، سالم تانگے کا کرایہ آٹھ آنے ہوتا تھا۔ یہیں پر ایک مجسٹریٹ آکر تانگوں پر بتی اور گھنٹی نہ ہونے پر اور زیادہ سواریاں بٹھانے پر چالان کیا کرتا تھا۔ وہ مجسٹریٹ چار آنے جرمانہ کیا کرتا تھا۔ اس کا نام ہی چونی مجسٹریٹ پڑ گیا تھا۔ ایک گوری خاتون نے محکمہ انسدادِ بے رحمی حیوانات بھی قائم کیا تھا۔ اس پر آئندہ بات کریں گے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین