• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کی بلا کیا آئی لندن کی رونقوں اور چکاچوند کو بھی نگل گئی۔ لندن جدید و قدیم فن تعمیر کا حسین ترین امتزاج ہے، اپنی بلند و بالا جارجین یا وکٹورین طرز کی عمارتوں، تعلیمی اداروں، میوزیم، آرٹ گیلریوں، تھیٹر، کلچر، میوزک اور اپنے شاہی پس منظر کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہے۔ رواں ماہ سے لے کر ستمبر تک لاکھوں کی تعداد میں پوری دنیا سے سیاح لندن آتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 30ملین سیاح سالانہ لندن آتے ہیں جس سے 20لاکھ افراد کی ملازمتیں اور ہزاروں بزنس چلتے ہیں۔ کووڈ 19سے پہلے برطانوی حکومت نے ٹورازم انڈسٹری کو مزید فروغ دینے کے لیے جو پلان بنایا تھا، اس کے مطابق آنے والے پانچ سال کے اندر برطانیہ کی سیاحت کی انڈسٹری 275کھرب پونڈ کی ہو جائے گی اور اس سے 40لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے جو ملک کے جی ڈی پی کا 10فیصد ہوگا۔ کورونا وائرس نے جہاں برطانیہ کی سیاحت کو بے حد نقصان پہنچایا ہے، وہاں معیشت و معاشرت کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ ایئر پورٹس، شپنگ پورٹس، ریلوے سسٹم، شاپنگ مالز، پب، کلب، ساحل سمندر، پارکس اور دیگر تفریح گاہیں سبھی کچھ بند پڑا ہے۔ لندن میں ایک آسیب زدہ ماحول ہے۔ ہرسُو ایک اداسی کالی گھٹا کی طرح چھا چکی ہے اور لندن اداس ہے تو سمجھیں پوری دنیا اداس ہے کیونکہ کچھ بھی ہو لندن برطانیہ کا ہی نہیں، دنیا کی سیاست کا بھی حب ہے کیونکہ دنیا بھر کے سیاسی تار و پود لندن میں ہی کئے جاتے ہیں، شاید اسی لئے اسے دنیا کا دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔

لندن کی گھٹا ٹوپ اداسی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب سے کورونا وائرس آیا ہے لندن کو 500ملین پونڈ روزانہ اور ایک اندازے کے مطابق اس سال کے آخر تک 127ارب پونڈ کا ناقابل تلافی نقصان صرف سیاحت کی انڈسٹری میں ہوگا۔ آج کی دنیا میں معاشی نقصان کسی بھی ملک کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے۔ سڑکیں اور شاپنگ مالز کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ ہر طرف ہُو کا عالم ہے یعنی کبھی ممکن ہی نہیں تھا کہ وسطی لندن یوں ویرانی کی عبرتناک تصویر پیش کرے گا لیکن آج لندن کا ویسٹ اینڈ تک ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ عام دنوں میں کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ’’ہیری پوٹر اینڈ دی کرسڈ چائلڈ‘‘ کے کسی بھی شو کے ٹکٹ دستیاب ہوں اور ویسٹ اینڈ کے اس علاقے میں جگہ مل جائے۔ لندن برج، ٹاور برج، ملینیم برج، ٹریفالگر اسکوائر، بکنگھم پیلس، ونڈسر کاسل، آرٹ گیلریز، میوزیم، اسپیکر کارنر اور ہائیڈ پارک کی رونقیں، آکسفورڈ اسٹریٹ، ریجنٹس اسٹریٹ اور آس پاس کے مہنگے ترین ڈیزائنر اسٹورز سب کے سب کووڈ 19کے تیر و تفنگ کا شکار نظر آتے ہیں۔ برطانیہ خصوصاً لندن جو اپنے تاریخی ورثے کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، سینکڑوں سال پہلے کی بربریت اور لرزہ خیز داستان کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے آسیب زدہ دارالحکومت کے طور پر بھی کیا جاتا تھا۔ آج کی صورتحال بھی یونہی آسیب زدہ سی لگتی ہے۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی مذہب یا عقائد کو مانا جاتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ وہاں ماضی میں جب بھی کوئی وبا یا آفت آئی اور دوائیں بھی بے اثر ہو گئیں تو لوگوں نے عبادت گاہوں کا رخ کیا لیکن معلوم تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا کہ بڑے بڑے متبرک مقامات سمیت مساجد، مندر، گوردوارے، چرچ اور سنیگال سب بند ہیں۔ مارچ میں ایسٹر کا تہوار آیا لیکن بغیر کسی مشترکہ عبادت کے گزر گیا، اب رمضان ہے لیکن مسجدیں نمازیوں سے خالی ہیں، امام، پادری، پجاری اور ربی سب انگشت بدنداں ہیں کہ میر تقی میرؔ کے بقول؎

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

صورتحال یہ ہے کہ آج دنیا کے تین ارب سے زیادہ انسان طبی قید میں ہیں اور جدید و اعلیٰ ترین ممالک بھی اپنے عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکتے، سوائے بے بسی سے تماشا دیکھنے کے، کیونکہ اس مہلک وائرس کی نہ تو کوئی دوا ہے نہ علاج، اس سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ کسی سے نہ ملیں اور گھروں میں رہیں لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ آج دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی کام نہیں کر رہی بلکہ ’’لائف آفٹر پیپل‘‘ کی ڈاکومنٹری جیسی صورتحال ہے۔

لندن جو پاکستانی سیاستدانوں کے لیے بھی ان کا دوسرا گھر ہے، جیسے ہی پاکستان میں اپوزیشن پر سیاسی افتاد آتی ہے تو ان کا ملجا و ماویٰ لندن ہی ہوتا ہے لیکن جاری معاملات نے انہیں بھی سفر نہ کرنے پر مجبور کر رکھا ہے چنانچہ لندن خصوصاً وسطی لندن کے دو تین مخصوص علاقے جہاں پاکستانی سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور اشرافیہ کے بعض سرکردہ لوگوں اور بڑے بڑے پاکستانی کھرب پتیوں کی جائیدادیں موجود ہیں، یہاں بھی نہ کیفے آباد ہیں نہ کیسینو اور نہ ہی شاپنگ مالز بلکہ اس کورونا وائرس نے بغیر ایک گولی چلائے پوری دنیا کو فتح کر لیا ہے اور تو اور ہمارے برطانیہ میں مقیم ٹیلی وژن چینلز کے نمائندگان کے لیے بھی کرنے کو کچھ نہیں۔ بیچارے بولائے بولائے سے پھرتے ہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں کہ متحدہ والوں کا آستانہ تو پہلے ہی بند ہو چکا، اب میاں نواز شریف کی ڈیوڑھی تک بھی جا نہیں سکتے اور یہ محض اتفاق ہی ہے کہ ان دنوں کوئی پاکستانی سیاستدان لندن کے کسی اسپتال میں زیرِ علاج بھی نہیں۔ آ جا کے یہی کورونا ہے اور اس کی تباہ کاریاں۔ پاکستان کمیشن لندن بھی بند ہے کہ وہیں سے کوئی بلاوا آ جائے۔ کورونا کی تباہ کاریاں تاحال جاری ہیں، حکومت ’’اسٹے ہوم‘‘ سے ’’اسٹے الرٹ‘‘ کی پالیسی کا اعلان کر چکی ہے۔ متاثر ہونے والے بزنس کے لیے 400ارب ڈالر کا امدادی پیکیج دینے کے ساتھ ساتھ تاجروں کے کئی قسم کے ٹیکسز بھی معاف کئے گئے ہیں کہ ٹیکس ادا کرنے والے حکومتی اور نجی ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 80فیصد تنخواہیں بھی حکومت ادا کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ لندن کورونا سے پہلے والا زندگی کی تمام تر رعنائیوں، حشر سامانیوں والا لندن نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجڑے دیار کا منظر دکھا رہا ہے۔ جناب ناصر کاظمی نے شاید اسی قسم کی صورتحال کے لیے کہا تھا؎

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

تازہ ترین