• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکیٔ داماں کی حکایت اس قدر بڑھا لی ہے کہ ہر قدم پر محترم وزیراعظم کے ساتھ ہیں کیونکہ ہم نے جمہوریت کے شانہ بشانہ چلنے اور سنگ سنگ رہنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ فرمائیں من و عن سر آنکھوں پر۔ وزیراعظم کی اِستقامت ہماری طاقت اور وزیراعظم کا وژن ہمارا زادِ راہ۔ وزیراعظم شروع سے لاک ڈاؤن کے زیادہ حق میں نہیں۔ بعض اوقات یہ تک لگتا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں۔ غریبوں سے ان کی ہمدردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ اپنے تئیں اس کوشش میں بھی ہیں کہ غریبوں کا بھلا ہو جائے۔ ابھی پرسوں وزیراعظم نے کہا کہ ’’ٹرانسپورٹ بند کرنے کا سب سے زیاہ نقصان غریب کا ہوتا ہے، سب سے درخواست ہے کہ ٹرانسپورٹ کھول دیں۔ 12ہزار روپے کتنی دیر تک ایک خاندان کیلئے کافی رہیں گے‘‘۔

وزیراعظم نے ’’درخواست‘‘ کی اصطلاح کا نجانے تکلف کیوں کیا، اور کس سے کیا، ہم تو حکم بجا لانے والے ہیں۔ سرکار کو غریبوں کا واقعی بہت خیال ہے، اللہ کرے کہ اتنا ہی خیال ان کی ٹیم کو بھی ہو جائے کہ غریب کا کورونا ٹیسٹ جلدی ہو جائے، غریب کو ادویہ سستی مل جائیں، غریب کے لئے وینٹی لیٹر دستیاب ہو، غریب کیلئے ٹائیگرز کورونا کنڈیشن میں دستیاب ہوں نہ کہ پوسٹ کووڈ 19دور میں، غریب کیلئے ’’احساس‘‘ بغیر استحصال کے ممکن ہو جائے، واقعی غریب ہی ڈیٹا میں آئے اور اسی زندگی ہی میں آئے۔ کم و بیش چار ماہ قبل ہمارے ایک ہمنوا کو ہیلتھ کار ڈ ملنا تھا، فون آتا ہے کہ اپنا ہیلتھ کارڈ لے جائیے ، جب اس کا صاحبزادہ کارڈ لینے کیلئے جاتا ہے تو حکم ہوتا ہے کہ اسپیشل افراد کو کارڈ وزیراعلیٰ ایک تقریب میں دیں گے۔ گویا پہلے دھکے کھائے جائیں، بعد ازاں استحصال، آخر میں تذلیل اور پھر ہیلتھ کارڈ۔ لیکن چار ماہ ہو گئے اس ’’عزت افزائی‘‘ کا موقع ہی نہیں آیا، پھر کورونا آگیا اور ترجیحات ہی بدل گئیں۔ پس ثابت ہوا کہ صحت کے حوالے سے جو کرنا ہو جلد کر لیا جائے ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے!

ہم سرکار کے وژن کے قائل ہیں سو ہمیں سیدھے اور سادے لفظوں میں کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ آپ لوگوں پر ہرڈ امیونٹی (غول طریقۂ قوتِ مدافعت) آزمانا مقصود ہے، ہم تو ہر طرح حاضر ہیں ایسے بھی اور ویسے بھی۔ یہ جو ملک بھر میں ٹیسٹنگ اینڈ ٹریسنگ کا کام سست روی کا شکار ہے، کووڈ 19شباب در شباب ہوگئی مگر ٹیسٹ رزلٹ جلدی ملنے کی کوئی سبیل نہ ہو سکی۔ یہ سب شاید ہرڈ امیونٹی ہی کی طرف جانے کا ایک سنگِ میل ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ 22کروڑ آبادی والے ملک میں ہرڈ امیونٹی پر تکیہ کرنا، لاپروائی سے سرہانے نیچے بازو رکھ کر سونے والی بات ہوئی۔ ویسے سیانے کہتے ہیں کہ انفارمیشن سے مفروضے تک، پھر مفروضے سے دلیل تک، دلیل سے تھیوری تک کا سفر اور آخر میں سائنسی قانون تک کا سفر بڑی لیب اور جدید آلات پر اور درون آزمائش گاہی (in vitro) ہی اچھا لگتا ہے، 22کروڑ کی شکل میں درون جانداری (in vivo) نہیں۔ چلیے ہم پھر بھی مان لیتے ہیں شاید یہی اسمارٹ لاک ڈاؤن ہو کہ معیشت بچاؤ اور ٹریفک چلاؤ۔

جس طرف آنکھ اٹھائیں وزرا بہت ’مصروف‘ ہیں، قومی اسمبلی کا یہ اجلاس شاہد ہے اگر انہیں سیاسی مصروفیات یا سندھ اور اپوزیشن کو سبق سکھانے سے فرصت ملے تو التماس کریں کہ ذرا ویتنام پر غور فرما لیجئے کہ 10کروڑ کے اس ملک کی سرحد چین سے بھی تقریباً 1444کلومیٹر ملتی ہے، یہ ترقی یافتہ ملک بھی نہیں تاہم اس نے تعلیمی ادارے بھی کھول دیے، اس سے قبل لوگوں کو موت منہ میں بھی نہیں جانے دیا، ابتدا ہی میں چین سے سرحد بند کی، اپنی ایئر لائنز اور ملکی معیشت کا بھاری نقصان اٹھایا، جنوبی کوریا جتنی سہولتیں نہ ہونے کے باوجود محض ہنگامی بنیادوں اور اپنی کٹس کو بروئے کار لاتے ہوئے ان سے زیادہ کامیابی حاصل کی، امیگریشن روکی، لوگوں کو خوب مانیٹر کیا، شک کی بنیاد پر سختی کی اور ٹیسٹ کئے، انسانی حقوق کو داؤ پر لگا کر بھی کورونا کا قلع قمع کیا۔ اسی کے پڑوسی جنوبی کوریا نے ٹیسٹ اتنی کثرت سے کئے کہ بیس ہزار ٹیسٹ یومیہ تک جا پہنچے، امریکہ و برطانیہ خوش فہمی و غلط فہمی میں رہے اور اٹلی کم فہمی میں اور اب صحت کے جدید انتظامات اور ماڈرن ٹیکنالوجی کے باوجود بھگت رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابتدائی بے احتیاطی نے ان کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ سنا ہے یہ ہرڈ امیونٹی کو جانچتے جانچتے خطرناک نتائج تک جا پہنچے۔ کیا خیال ہے یہ سب ہمارے وزیراعظم صاحب کو نہیں معلوم؟ اجی انہیں سب معلوم ہے اگر کچھ نامعلوم ہے تو وہ یہ کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ جہاں دو ٹوک حکم کی ضرورت ہے وہاں ’دو ٹوک‘ درخواست کی ڈیسینسی کا سہارا۔ جن دنوں عوامی ویلفیئر دیکھنے کی ضرورت ہے ان دنوں بلاضرورت سود پر نظریں مرکوز ہیں اور جب وفاقی وزارتوں اور اداروں کی بڑھوتری اور اخراجات کو کم کرنا مقصود ہے ان دنوں این ایف سی ماڈل میں صوبوں کے پیسے کم کرنے پر توجہ اور 18ویں ترمیم پر نظر ہے۔ جب وزارتِ صحت ، نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ اور وزارت صوبائی کوآرڈی نیشن کے افعال کی شدید ضرورت ہے ان دنوں نیب شدت سے ’سیاسی کرپشن‘ کی بیخ کنی کے درپے ہے۔ جاتے جاتے ایک التجا ہے کہ جناب وزیراعظم آپ دو ٹوک حکم کیا کریں، درخواست نہیں۔ آپ وزیراعظم ہیں! بہرحال وزیر اعظم کا جو بھی فیصلہ ہے وہ من و عن سر آنکھوں پر، اور ویتنامی وزیراعظم گوین کی ایک بات خواص و عوام کی نذر کہ ’’کورونا کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے سیاسی عزم، منظم نظام حکومت اور فرمانبردار عوام کا ہونا کافی ہے‘‘!

تازہ ترین