• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وبا کی وجہ سے تقریباً 2ماہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ حالات اشارے اور حکومتی اہلکار عندیہ دے رہے ہیں کہ شاید یہ سلسلہ مزید کئی مہینوں تک چلے۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے تک کروڑوں بچے اور لاکھوں نوجوان اپنا تعلیمی سلسلہ کیسے جاری رکھیں؟ پاکستان میں اس وقت 1لاکھ 56ہزار 1سو پرائمری اسکول ہیں۔ 28ہزار 7سو 16مڈل اور 16ہزار 59ہائی اسکول ہیں جبکہ فیڈرل گورنمنٹ کے تحت 94ہزار 7سو 5پرائمری، 53ہزار 3سو 90مڈل اور 33ہزار 6سو 44ہائی اسکول ہیں۔ ان اسکولوں میں اس وقت 1کروڑ 74لاکھ 15ہزار 2سو 40پرائمری، 40لاکھ 35ہزار 40مڈل اور 16لاکھ 58ہزار 2سو 99ہائی اسکول کے طالبعلم پڑھ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اس وقت 15ہزار 9سو 90کالج چلا رہی ہے جبکہ باقی ملک میں607ووکیشنل، 939جنرل اور 374پروفیشنل کالج ہیں۔ ان کالجوں میں 9لاکھ 95ہزار 349طالبعلم پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 45یونیورسٹیاں ہیں، ان یونیورسٹیوں میں 3لاکھ 88ہزار 668طالبعلم زیر تعلیم ہیں۔ ملک میں 130پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں جن میں 1لاکھ 16ہزار 410طالبعلم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ملک میں تعلیم بالغاں کے 1ہزار 915سنٹرز ہیں۔ یہ سنٹرز 34اضلاع میں کام کرتے ہیں، ان میں 51ہزار 8سو طالبعلم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان تمام اداروں میں اس وقت 4لاکھ 35ہزار 742پرائمری، 2لاکھ 46ہزار 535مڈل اور 2لاکھ 87ہزار 494ہائی اسکول کے اساتذہ کام کر رہے ہیں جبکہ یونیورسٹیوں میں 20ہزار اساتذہ ہیں۔ پاکستان کی حکومت ان تمام اداروں اور اساتذہ پر سالانہ 1کھرب 11کروڑ 50لاکھ 15 ہزار روپے خرچ کرتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 42ہزار دینی مدارس ہیں۔ان تمام مدارس میں 32سے 35لاکھ تک طلبہ اور طالبات دینی و عصری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ملک میں اس وقت تعلیم کے 196منصوبے چل رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نائن الیون سے پہلے اور نائن الیون کے بعد کی دنیا میں تبدیلی آئی تھی اسی طرح کورونا سے پہلے اور کورونا کے بعد کی دنیا بھی بہت مختلف ہوگی۔ پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی واضح تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ پہلی تبدیلی فاصلاتی تعلیم ہوگی۔ ترقی یافتہ دنیا میں تو کافی عرصے سے فاصلاتی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے اب پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس دور میں جبکہ لوگوں کے پاس وقت بہت کم ہے، وسائل محدود ہیں، نت نئی ٹیکنالوجی اور جدید ترین آلات آ رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہونے سے مختلف موبائل ایپس پر کلاسیں ہونے لگی ہیں، گویا اب طریقۂ تعلیم بدل رہا ہے۔ کورونا کے بعد اس بات کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جائے گا کہ لوگوں کو کلاسوں میں فزیکلی بٹھا کر پڑھانے کے بجائے ایسا سسٹم لایا جائے کہ لوگ اپنے گھر میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں، کلاسیں اٹینڈ کر سکیں، کوئی لیکچر دے اور سن سکیں، تعلیمی نظام میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ جب سے یہ وبائی سلسلہ شروع ہوا ہے تعلیم و تحقیق کے میدان میں سب سے بڑا سوال یہ سامنے آیا ہے کہ انسانیت کی تباہی کے جتنے آلات و ہتھیار اور وسائل عالمی طاقتوں نے پیدا کئے ہیں، ان کے مقابلے میں انسانیت کو بیماری اور وبائوں سے بچانے کے لئے بڑی بڑی ایٹمی و معاشی طاقتیں اس کورونا کے سامنے ڈھیر کیوں ہوگئی ہیں۔ اس ضرورت کو بھی تعلیم کے شعبے میں خاص طور پر محسوس کیا جائے گا کہ انسانیت کی فلاح، بقا، صحت اور اس کو بیماریوں اور وبائوں سے محفوظ کرنے کے شعبے میں تعلیم اور سائنس کہاں کھڑی ہے اور اس کو کتنی ترقی کرنی چاہئے۔ اس شعبے پر توجہ دینے کے مواقع بڑھیں گے۔ تعلیم کے حوالے سے ابھی بظاہر ایسا لگ رہا ہے جب تک وبا قائم ہے تعلیم کے لئے لوگوں کو کلاسوں میں لاکر بٹھانا شاید ممکن نہ ہو، اس کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اس بارے میں تعلیمی اداروں کو سوچنا ہے کہ وہ کس طرح تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں، طلبہ کے تعلیمی سال کو بچا سکیں اور جو حفاظتی تدابیر ہیں ان کو بھی اپنایا اور ان پر عمل کیا جائے۔ یہ بھی اس موضوع کا ایک پہلو ہے۔ جیسے ہماری عبادات میں نمازوں میں صفوں میں فاصلہ رکھنے کی پوری اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، یہ ایک نئی چیز اور نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی ایسا نظام قائم کرنا ہے کہ جس میں لوگوں کا آپس میں جسمانی فاصلہ زیادہ سے زیادہ اور رابطہ کم سے کم ہو۔ اس طریقے سے تعلیم کے نظام کو منظم کرنا بھی تعلیمی شعبے کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو فوری طور پر درپیش ہے۔

موجودہ وبا کا تعلق صفائی ستھرائی سے بھی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں خاص طور پر ہمارے غریب اور ترقی پذیر معاشروں میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، ہاتھ دھونا، اپنے آپ کو مستقل صاف ستھرا رکھنا، اس چیز کی ضرورت بھی تعلیمی نظم و ضبط میں شامل ہے، اس کو بھی بہت زیادہ محسوس کیا جائے گا اور اس کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے کہ تعلیم حاصل کرنے والے ہمارے بچے اس کا اہتمام کریں۔ آئندہ کے لئے اگر ایسی کوئی وبا یا وائرس آتا ہے تو اس سے اپنے بچائو کے لئے کون سے حفاظتی اقدامات کرنا چاہئیں، یہ بھی ایک پہلو ہے جس پر ہمارے تعلیمی نظام کو اہمیت دینا ہوگی۔ ان تمام پہلوؤں پر ہمارے اربابِ حل و عقد کو ابھی سے اور سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا۔

تازہ ترین