• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز پیشتر چھپنے والے ایک سروے کے مطابق پاکستانی ہندوستانیوں، بنگلہ دیشیوں اور چینیوں سے زیادہ ہشاش بشاش زندگی گزارتے ہیں۔ یہ بات دنیا میں اس تاثر کے بالکل مختلف ہے کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں مسلح دہشت گردوں کا راج ہے اور اس کی حکومت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اس خبر کو پڑھ کر ایک پاکستان مخالف نے یہ چٹکلا بھی چھوڑا کہ پاکستانی اس لئے خوش ہیں کہ ان کو بہت جلد شہادت کے بعد بہتّرحوروں سے نوازا جائے گا۔ قطع نظر اس طرح کی منفی رویّے کے یہ عقدہ قابل تفسیر ضرور ہے کہ آخر پاکستانی اپنے ہمسایوں سے زیادہ ہشاش بشاش کیوں ہیں۔ذاتی طور پر یہ سوال میرے ذہن میںآ تا رہا ہے کہ ہندوستان سے پاکستان آتے ہوئے یہ کیوں لگتا ہے کہ ایک زیادہ ترقی یافتہ، اجلے اور پُرجوش ملک میں آ گئے ہیں؟ میں متعدد بار ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گھوما ہوں اور ہر مرتبہ واپس آکر یہی احساس ہوتا تھا کہ میں ایک خوشحال ملک میںآ گیا ہوں۔
پہلے تو میں یہی سمجھتا رہا کہ یہ میرا موضوعی تعصب یا اپنے ملک کے ساتھ لگاوٴ ہے لیکن اس سروے نے میرے اس تاثر کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ برسبیل تذکرہ بنگلہ دیش سے آنے والے پاکستانیوں کا تاثر بھی مجھ سے مختلف نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو باہر رہنے والوں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان میں دہشت گردی یا طالبان کے ساتھ جنگ شمال کے کچھ علاقوں اور کراچی تک محدود کیوں ہے۔ پنجاب، اندرون سندھ بلکہ خیبرپختونخوا کے بھی اکثر علاقے بہت پُرامن ہیں۔ پنجاب میں جوزف کالونی جیسے کچھ سانحات ہوئے ہیں لیکن ان کی شدت دہلی میں سکھوں اور ہندوستانی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے کہیں کم تھی۔ اب بھی ہندوستان میں مذہبی منافرت کا آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ ہندوستان میں نکسل باڑی تحریک نے بھی کئی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہمارا مقصد ہندوستان کے ساتھ تقابلی مطالعہ پیش کرنا نہیں بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ پاکستان اتنا برا نہیں جتنا بدنام ہے یعنی منّی صرف بدنام ہے! پاکستان کا نوّے فیصد علاقہ پُرامن اور معمول کی زندگی گزار رہا ہے۔ایک دوسرا سنجیدہ مغالطہ بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر اوقات پاکستان کی حکومت کے مالی حالات بہت برے ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر رہی اور لوگوں کی خوشحالی میں اضافہ نہیں ہو رہا ہوتا۔ اکثر تجزیہ کار، بالخصوص صحافی حکومتی مالی خسارے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چونکہ حکومت بدحالی کا شکار ہے اس لئے عوام بھی ویسے ہی نان نفقے کو ترس رہے ہوں گے۔
معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے، پاکستانی معیشت کافی تیزی سے ترقی کرتی رہی ہے، اس کے کاروباری شعبے نہایت منافع بخش ہیں لیکن چونکہ اکثر ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرتے لہٰذا وہ خود تو خوشحال رہتے ہیں لیکن حکومت غریب رہ جاتی ہے۔ تاریخی طور پر آج پاکستانی کہلانے والے خطے کے زیادہ تر حصے (پنجاب اور سندھ) اس لحاظ سے خوش قسمت رہے ہیں کہ یہاں بیسویں صدی میں ہر تیسری چوتھی دہائی میں کسی وجہ سے خوشحالی کی لہر آ جاتی ہے۔ خوشحالی کی سب سے پہلی لہر تو اس وقت آئی جب انگریز نے بیسویں صدی کے آغاز میں ہی نہری نظام کا جال بچھا کر مشرقی و مغربی پنجاب کے غریب کسانوں میں زمینیں آباد کرنے کیلئے بانٹیں۔ ظاہر ہے فی کس قابل کاشت زمین میں کافی اضافے سے اور کچھ صنعتیں (ٹیکسٹائل وغیرہ) لگنے سے عوام میں خوشحالی آئی اور ان کا معیار زندگی کافی بلند ہوا۔ مشرقی پنجاب کے علاقے میں فی کس زمین میں کوئی اضافہ نہیں ہوا چنانچہ فی ایکٹر زیادہ پیداوار کے باوجود خوشحالی کی لہر نہیں آئی۔
پاکستانیوں کی خوشحالی کی دوسری بڑی وجہ خود پاکستان کا معرض وجود میں آنا تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے کسان نسبتاً خوشحال تھے لیکن وہ ایک زرعی معیشت کا حصہ تھے۔ تب آج کے پاکستانی مسلمانوں میں تعلیم کی کمی تھی،کاروباری اور دوسری پیشہ ورانہ صلاحیتیں ناپید تھیں، سوائے پولیس اور فوج کے پاکستانی مسلمانوں کی نمائندگی کسی بھی شعبے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ شہروں میں زیادہ تر مسلمان دستکار یا مزدور پیشہ تھے جبکہ انتظامیہ سے لیکر ہر شعبے پر ہندو اور جزوی طور پر سکھ چھائے ہوئے تھے۔ 1940ء میں پنجاب کی تقسیم ایک طرف تو انسانی خونریزی کا بدترین باب تھا جس میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے لیکن پنجابی مسلمانوں کو فائدہ یہ ہوا کہ ہندوؤں کی نقل مکانی کی وجہ سے ان کا بھرے پرے شہروں پر مکمل قبضہ ہو گیا۔ یوپی سے بھی ہجرت کرنے والوں کا ایک حصہ معاشی مواقع کی تلاش میں پاکستان آیا تھا جس پر مشہور ادیب اور ایکٹر بلراج ساہنی کی فلم”گرم ہوا“ کافی روشنی ڈالتی ہے۔ غرضیکہ پاکستانی مسلمانوں کو پیشہ ورانہ ترقی کے بھی بے انتہا مواقع میسر آگئے جس سے خوشحالی کی ایک اور لہر آئی۔
پچھلے تیس سالوں میں مشینی پیداوار، تجارتی اور صنعتی ترقی سے ایک اور انقلاب برپا ہوا ہے جس کے نتیجے میں بکریاں چرانے والے کے ہاتھ میں بھی موبائل فون آ گیا ہے۔ آج زرعی شعبہ پاکستانی معیشت کا صرف بائیس فیصد رہ گیا ہے اور پاکستانیوں میں کاروباری اور دوسری صلاحیتوں کی فراوانی ہے۔ پچھلے تیس چالیس برسوں میں معیشت کافی تیز رفتاری سے ترقی کرتی رہی ہے اور معاشرے کا ہر سطح پر معیار زندگی بلند ہوا ہے۔ معیار زندگی کو بہتر بنانے میں تارکین وطن نے بھی کافی مدد کی ہے۔ مندرجہ بالا معاشی تبدیلیوں سے پاکستان میں طبقات کی بھی ترتیب نو ہوئی ہے۔ غالباً بھارت میں یہ عمل ذات پات(بطور طبقات کے) کی وجہ سے سماجی تبدیلی کا عمل بہت سست رہا ہے اور معاشی خوشحالی نے قوم کے چہروں کو بشاشت سے ہمکنار نہیں کیا۔شاید ایک اور بہت بڑا عنصر ہندوستان میں بچتوں کا اور پاکستان میں خرچ کرنے یا تصرف پسندی کے رجحان میں مضمر ہے۔ نوبل انعام یافتہ معاشیات دان آرتھر لوئس کا کہنا ہے کہ پندرھویں سولہویں صدی تک یورپ اور ہندوستان علم، ٹیکنالوجی اور ترک وطن کے رجحان میں ایک سطح پر تھے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یورپ کیوں صنعتی دور میں داخل ہو گیا اور ہندوستان کیوں پسماندہ رہ گیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لوئس کا کہنا ہے کہ یورپین نئی دولت پیدا کرکے خرچ کرتے تھے (ہیں) جبکہ ہندوستانی دولت بچا کر ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ یورپ میں اشیائے صرف پر خرچ کرنے سے سرمایہ ترقی کرتا اور نئی نئی صنعتوں کو جنم دیتا رہا جبکہ ہندوستان میں سرمایہ ذخیرہ ہو کر جامد ہوتا چلا گیا۔ شاید پاکستان اور ہندوستان میں بھی یہی فرق ہے کہ پاکستانی اشیائے صرف پر مقدور بھر خرچ کرتے ہوئے ہشاش بشاش ہیں جبکہ ہندوستان میں زیادہ تر وافر سرمایہ بچتوں کی مد میں آ جاتا ہے اور عوام تشویش میں مبتلا رہتے ہیں…یہ ہمارا مفروضہ ہے جسے سائنسی مطالعے سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔الغرض پاکستانیوں کے ہشاش بشاش ہونے کی تاریخی وجوہات بھی ہیں اور شاید ان کا طرز زندگی بھی ایسا ہے کہ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“۔
تازہ ترین