• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذرا ایک منٹ کے لئے اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور کوئی ایسا شخص تلاش کیجئے جو آپ کے خیال میں ذہین ،زیرک اور دور اندیش ہو!تھوڑی دیر کی سعی لا حاصل کے بعد لا محالہ آپ کی نظر آئینے پر جا ٹھہری گی اور آپ کو مطلوبہ خصوصیات کا حامل شخص نظر آ جائے گا۔لیکن آئینے کو فی الحال اپنے سے دور رکھ کر ایک مرتبہ پھر کوشش کریں ،شائد آپ کی نظریں کوئی ایسا ویژنری شخص تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو بظاہر ہم جیسا ہی دکھتا ہو مگر حقیقت میں جینئس ہو،شنید یہی ہے کہ ایسا شخص انرجی سیور لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔تاہم یہ اور بات ہے کہ ہم آئے دن ٹی وی مذاکروں میں ایسی شخصیات کا درشن کرتے ہیں جو اپنے تئیں نہ صرف ذہین ترین افراد کی صف میں شامل ہیں بلکہ ان جیسا اعلیٰ کردار کا حامل بھی کوئی نہیں!افلاطون کے فلاسفر کنگ کی مانند یہ لوگ اپنی زنبیل میں ہر مسئلے کا حل لے کر گھومتے ہیں اور جہاں کہیں انہیں چھابہ لگانے کا موقع ملتا ہے وہاں مال بیچنے سے نہیں چوکتے ۔انہیں آپ ”خودساختہ“ دانشور کہہ سکتے ہیں ،ان کا تجزیہ دو نمبر ہوتا ہے اور ان کی گارنٹی بھی کوئی نہیں !
ایسے دانشوروں میں ریٹائرڈ جرنیل سر فہرست ہیں ۔اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں انہوں نے بھلے کوئی جنگ نہ جیتی ہو مگر رات کو ٹائی لگا کر ملک کے خانگی حالات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات کی مینا کاریوں تک یوں اپنے افکار عالیہ کے موتی بکھیرتے ہیں جیسے نوم چومسکی کے اتالیق یہی ہوں ۔افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ،سٹریجک ڈیپتھ،روس کا علاقے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ،بھار ت کے توسیع پسندانہ عزائم،پاک ایران گیس پائپ لائن پر امریکی دباؤ کے مضمرات وغیرہ ان کے محبوب ترین موضوعات میں سے چند ہیں ۔ٹی وی اور اخبارات میں اپنے خیالات کا اظہار فرماتے وقت یہ حضرات فوج اور ایجنسیوں کی کارکردگی کا پول یوں کھولتے ہیں جیسے بچے کسی محفل میں گھر کوئی کا راز افشاء کرتے ہیں۔سنی سنائی تھیوریاں ،غیر ملکی اخبارات کے تجزئیے جو ان کے خیال میں کسی اور نے نہیں پڑھے ہوتے اورانٹر نیٹ کی غیر مصدقہ ویب سائٹس سے اکٹھی کی گئی سنسنی خیز ”انفارمیشن“ان کا سورس ہوتی ہے جن کا ایک ملغوبہ سا بنا کریہ ہمارے سامنے پیش کردیتے ہیں اور اپنے تئیں دانشوروں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں ۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جاسوسی اداروں اور فوج کے سربراہان کو کیا ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ٹی وی پر نمودار ہو کر اپنے اداروں کا کچا چٹھا کھولیں۔ طاقت تو ان دیکھی ہوتی ،دشمن کو یہ پتہ ہی نہیں چلنا چاہئے کہ آپ کیا سوچتے ہیں اور آپ کی دفاعی صلاحیت کیا ہے جبکہ ہمارے یہ ریٹائرڈ جرنیل نہ جانے کب کی حسرت دل میں دبائے بیٹھے ہوتے ہیں !جونہی انہیں موقع ملتا ہے،ٹی وی پر نمودار ہو کر سطحی قسم کی گفتگو سے سارا بھرم ہی توڑ دیتے ہیں ۔مجھے تو یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے کہ اس قسم کی ذہنی سطح کے لوگ ہمارے اعلیٰ ترین اداروں کے سربراہ رہے ہیں ،شائد اسی لئے ہمارا آج یہ حال ہے ۔
اور پھر ریٹائرڈ جرنیلوں پر ہی کیا موقوف،ریٹائرڈ بیوروکریٹس بھی کسی سے کم نہیں ۔ساری عمر من پسند پوسٹنگ کے مزے لوٹنے اور فوجی آمروں کے اشاروں پر ناچنے کے بعد ریٹائرمنٹ لیتے ہیں اور پھر کسی سادھو کے انداز میں دنیا کی بے ثباتی کا رونا روتے ہوئے درویشی اور فقیری کا لبادہ اوڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مجھے تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ،دیر آید درست آید،مگر رونا تو یہ ہے کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کی طرح ان ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی دانشمندی بھی ایکسپوز ہو جاتی ہے۔ان کے پاس کسی مسئلے کا حل ہے نہ گڈ گورننس کی کوئی ترکیب ،کبھی ان کا کوئی تجزیہ درست ثابت ہوا نہ کبھی ان کی بات میں کوئی ویژین ملا۔ان کے پاس فقط اپنی ذات کے حوالے سے چند جھوٹے سچے واقعات ہوتے ہیں جن کی رو سے یہ ثابت کرنے میں مگن رہتے ہیں کہ یہ بہت خدا ترس اور درویش صفت افسر تھے، ایک دفعہ کوئی بوڑھی اماں ان کے دفتر میں لاٹھیاں ٹیکتی آ گئی تو انہوں نے فوراً اس کا کام کر دیا اور دعائیں سمیٹیں ،وہ بڑھیا دراصل کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے جو ان کے امتحان کی غرض سے آئے تھے وغیر ہ وغیرہ۔مگر میرا رونا وہیں ہے ۔میں تو ایسے شخص کی تلاش میں ہوں جو بھلے ریٹائرڈ جرنیل ہو یا بیوروکریٹ ،مگر دانش کے کم از کم معیار پر تو پورا اترتا ہو ،حالات کا معروضی تجزیہ کرنے کی اہلیت تو رکھتا ہو ،تھوڑ بہت دور اندیش تو ہو… مگر یہاں تو ایسا قحط الرجال ہے کہ خدا کی پناہ۔ اندھوں میں کانے راجے ہوتے ہیں،یہاں تو سب ہی اندھے راجے ہیں ۔
اپنے گریبان میں جھانکنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ما سوائے چند جینئس لوگوں کے ،کون سے اخباری دانشور یا ٹی وی ااینکر ایسے ہیں جن کے بارے آپ یہ گمان کر سکیں کہ واقعی یہ ذہین اور زیرک ہیں !ایسے کون سے تجزئیے ان کے منہ سے جھڑتے ہیں جنہیں سن کر لگے کہ واہ اس ملک میں ایسا ایسا ہیرا بھی پڑا ہے !الیکٹرانک میڈیا کے زیادہ تر میزبان ان تھیوریوں کو بڑھاوا دیتے ہیں جو ایک مقبول عام سوچ کی نمائندگی کرتی ہیں اور یہ ریٹنگ لینے کا سب سے آسان نسخہ ہے ۔کون سی دانش اور کون سی فہم و فراست ہے ہمارے پاس جس کی بل بوتے پر ہم یوں اچھلتے کودتے رہتے ہیں ،کس بات کا زعم ہے ہمیں ،کس چیز کا تکبر ہے ؟غالبا ً اس بات کا کہ بطور ٹی وی اینکر ہم کنگ میکر ہیں !ممکن ہے یہ بات کسی حد تک درست ہو مگر میرا رونا اب بھی وہیں ہے ۔کوئی تو ہو جو صرف عقل و دانش کی بات کر ے،جس کی بات میں اورجنیلیٹی ہو،غیر ملکی پریس کا چربہ نہ ہو ،اپنا کوئی ویژین رکھتا ہو ،حالات پر اس کی گہری نظر ہو ،اس کے تجزئیے صرف آج کے حالات کے مطابق نہ ہوں بلکہ آنے والے زمانوں کی بھی خبر دیں ۔
گذشتہ پانچ برسو ں میں بھانت بھانت کے تجزئیے سننے اور پڑھنے کو ملے ،کیا کوئی مجھے یاد دلائے گا کہ ان میں سے ایک بھی تجزیہ درست ثابت ہوا؟ بنگلہ دیشی ماڈل سے لے کر انتخابات ملتوی ہونے تک اورفوجی مداخلت کی دو ٹوک پیشن گوئیوں سے لے کر صدر مملکت کے دبئی میں قیام تک ،مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کوئی ایک بھی بات ایسی ہو جو پوری ہوئی ہو!اور پھر یہ صرف پیشین گوئیوں کی بات نہیں ،یہ بات ہے ویژن کی ،دانش کی اورحالات کا درست تجزیہ کرنے کی۔بے شک ہمارے پاس ایسے ایسے گوہر نایاب موجود ہیں جو دانشور بھی ہیں اور ویژن بھی رکھتے ہیں ،ان کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا اکثر موقع ملتا رہتا ہے مگر ایسے لوگوں کی تعداد بے حد کم ہے ۔جبکہ لطیفہ یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنے تئیں دانشور بنا بیٹھا ہے ،ہر کسی نے کوئی فلسفہ گھڑ رکھا ہے چاہے اس فلسفے کا کوئی سر پیر ہی نہ ہو، مگر وہ خود کو دانشوروں کی اشرافیہ میں شامل کرنے پر مصر ہے ۔مجھے ایسی معصومانہ خواہش پر بھی کوئی اعتراض نہیں البتہ جب کسی ذہین فطین اور قابل شخص کی حکومتی سطح پر پذیرائی کی جاتی ہے تو یہ بے چارے خود ساختہ دانشور اپنے بال نوچتے ہیں اور مختلف تاویلیں تراش کر اس شخص پر پل پڑتے ہیں جو ان کے مقابلے میں دیو کی حیثیت رکھتا ہے ۔مسئلہ ان خود ساختہ دانشوروں کا بس اتنا ہوتا ہے کہ اگر فلاں کی پذیرائی ہو سکتی ہے تو ہماری کیوں نہیں ،ہم بھی تو اندھوں میں کانے راجے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ بیچارے کانے بھی نہیں ہیں ،یہ اندھے ہیں۔
تازہ ترین