• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”ایک دو تین چار پانچ“ یہ کسی انڈین گانے کے بول نہیں بلکہ سرگودھا کی فضا میں پاک فضائیہ کا ایک ہوا باز دوران پرواز یہ گنتی گن رہا تھا۔ زمین پر کنٹرولر نے اس سے وائرلیس پر پوچھا ”کیا تم کوئی گانا گنگنا رہے ہو؟“ ہوا باز نے کہا ”نہیں، میں بھارتی ہنٹر کو گن رہا ہوں“ کنٹرولر نے کہا ”کیا ہنٹر سے مراد کوئی پرندے ہیں؟“ ہوا باز نے کہا ”میرے لئے یہ پرندوں کی ہی مانند ہیں، بھارتی پرندے پاکستانی شاہینوں کا من پسند شکار“۔ گنتی گننے والا یہ ہوا باز کوئی اور نہیں پاکستان کا عظیم ہیرو محمد محمود عالم تھا جس نے7ستمبر1965ء کو پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کے محاذ پر 5 بھارتی ہنٹر طیاروں کو ایک منٹ کے اندر اندر گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا، ان میں سے 4 طیارے صرف30 سیکنڈ میں گرائے گئے۔ اس کارنامے نے ایم ایم عالم کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، ان کا شمار پاکستان کے ہیروز میں ہونے لگا اور انہیں ”لٹل ڈریگن“ اور ”ٹاپ گن“ کا خطاب ملا۔ ایم ایم عالم کے بقول ”قلیل وقت میں 5 جہاز گرانا ایک معجزہ تھا اور اللہ نے میرے جذبے کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ موقع دیا“۔ پاکستان کا یہ عظیم ہیرو گزشتہ دنوں ہم سے جدا ہوگیا اور اس طرح پاک فضائیہ کے افق سے ایک تابناک ستارہ بھی غروب ہو گیا۔ ایم ایم عالم ایک ایسے مایہ ناز مجاہد تھے جنہوں نے فضائیہ کی تاریخ میں شجاعت کی لازوال مثال قائم کی۔ وہ 6 جولائی 1935ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے وقت انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ مشرقی پاکستان ہجرت کی۔ 1952ء میں ایم ایم عالم نے پاکستان ایئرفورس میں شمولیت اختیار کی اور 1965ء کی جنگ میں اسکواڈرن لیڈر کی حیثیت سے کارنامہ انجام دے کر اپنا شمار پاکستان کی عسکری تاریخ کے یادگار کرداروں میں کرالیا۔ ایم ایم عالم نے پی اے ایف میں ایئر کموڈور کے عہدے تک ترقی پائی۔ پاکستان ایئرفورس ان کی زندگی اور ہوا بازی ان کا جنون تھا لیکن ایک بہترین ریکارڈ رکھنے اور خواہش کے باوجود انہیں1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پرواز نہیں کرنے دی گئی۔ یہ بات بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن نے ایم ایم عالم کو بنگلہ دیش ایئرفورس کے چیف کا عہدہ سنبھالنے کی پیشکش کی تھی جسے ایم ایم عالم نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ ”میں بنگلہ دیش فضائیہ کا کمانڈر انچیف بننے کے بجائے پاک فوج میں ایک ادنیٰ عہدہ رکھنے پر فخر محسوس کرتا ہوں“۔
ایم ایم عالم نے اپنی زندگی میں کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس وقت کے پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف سے ان کے کچھ اختلافات منظر عام پر آئے جو اس وقت بڑھ گئے جب ایم ایم عالم نے صدر ضیاء الحق کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ایک خط تحریر کیا جس کے بعد 1980ء میں انہیں ایئر کموڈور کے عہدے سے جبراً ریٹائر کر دیا گیا اور اس طرح پاکستان ایئرفورس کا ایک تابناک افسر اپنے اعلیٰ افسروں کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اپنی تضحیک آمیز ریٹائرمنٹ سے ایم ایم عالم اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کی پنشن لینے سے بھی انکار کر دیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہونے کے باعث ایم ایم عالم نے نہایت کسمپرسی کی زندگی گزاری مگر آخر تک پنشن نہ لینے کے فیصلے پر قائم رہے۔ ایم ایم عالم کی جرأت و بہادری صرف ایئرفورس تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے افغانستان سے روسی تسلط کے خاتمے کیلئے افغان مجاہدین کو تربیت دینے اور روسی فوج کے خلاف قندھار اور جلال آباد کے جنگی معرکوں میں بھی حصہ لیا۔ ایم ایم عالم کے ایک قریبی ساتھی ایئر مارشل (ر) ایاز احمد خان کا کہنا ہے کہ ”ایک روز آدھی رات کو ان کے اسلام آباد کے گھر میں کسی شخص نے دستک دی، انہوں نے جب دروازہ کھولا تو دروازے پر ایک شخص کو میلے کپڑوں میں کھڑا پایا جس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور اس نے پختون ٹوپی پہن رکھی تھی۔ دروازے پر کھڑے شخص نے مجھ سے کہا کہ ”شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں، میں ایم ایم عالم ہوں اور 2 دن سے بھوکا ہوں“۔ ایاز احمد کے بقول انہوں نے جب اسے اندر بلا کر کھانا پیش کیا تو وہ جس طرح سے کھانا کھا رہا تھا ایسا لگتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بھوکا تھا جس کے بعد ایم ایم عالم کا مجھے کچھ پتہ نہ چلا مگر خبریں آتی رہیں کہ وہ مجاہدین کے ساتھ افغان جہاد میں شریک ہیں“۔
قومی مشاہیر کے احسانوں کا بدلہ اتارنے میں ہمارا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح ایم ایم عالم بھی اُن بدقسمت ہیروز میں شامل ہیں جنہیں اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز کرنے کے بجائے نہ صرف جبراً ریٹائر کر دیا گیا بلکہ ان کے کارناموں کو بھی بھلا دیا گیا۔ ایم ایم عالم نے اپنی زندگی کے آخری ایام بڑی کسمپرسی اور فاقوں کی حالت میں گزارے۔ 5 بھارتی جنگی طیاروں کو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں گرانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے ”ٹاپ گن“ (Top Gun) کو کیریئر کے عروج میں پاکستان بھر سے سیکڑوں لڑکیوں کے خطوط موصول ہوئے جس میں وہ اس نوجوان پائلٹ سے شادی کی خواہشمند تھیں مگر ایم ایم عالم نے اپنی پوری زندگی قوم کیلئے وقف کر دی تھی اس لئے وہ آخر تک غیر شادی شدہ رہے۔ پاکستان کے اس عظیم ہیرو کی نماز جنازہ پی اے ایف بیس مسرور میں ادا کی گئی جس میں پاکستان ایئر فورس کے اعلیٰ افسران بھی شریک تھے جس کے بعد ایم ایم عالم کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ میں بھی قوم کے اس ہیرو کی نماز جنازہ میں شرکت کروں اور ان کی میت کو کندھا دوں لیکن ملک سے باہر ہونے کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا تاہم وطن واپسی پر میں نے اس عظیم شخص کی قبر پر پھول چڑھائے، فاتحہ پڑھی اور قوم کی جانب سے ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر معافی مانگی۔ پاکستان ایئر فورس کے اعلیٰ افسران نے ایم ایم عالم کی نماز جنازہ میں شرکت اور فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین کر کے شاید ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا ازالہ اور ان کے احسانوں کا بدلہ اتار دیا ہے اور شاید حکومت نے بھی ملک کے اس عظیم ہیرو کو ”ستارہ جرأت“ سے نواز کر اور لاہور کی ایک شاہراہ کو ”ایم ایم عالم روڈ“ کے نام سے منسوب کر کے ان کے احسانوں کا بدلہ چکا دیا ہے۔ جنون کی حد تک وطن سے محبت کرنے والا یہ عظیم سرفروش آج ہم میں نہیں رہا اور ملک ایک حقیقی محب وطن پاکستانی سے محروم ہو گیا لیکن علامہ اقبال کے اس شاہین کے کارنامے اور شجاعت کی لازوال مثال رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔
تازہ ترین