• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق62/63 پر قائداعظم بھی پورے نہیں اتریں گے“۔ اعتزاز احسن نے کیا کہہ دیا؟مجیب الرحمان شامی صاحب کا تبصرہ (جس کو شائع کرکے عام کرنے کی ضرورت ہے ) کے بعدمزیدکچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میرا موضوع تصویر کا ایک اور رخ ہے ۔ہمارے قومی رہنما 62/63 کا مذاق اڑا کر اپنی کرتوتوں کو قابل ِ قبول بنا رہے ہیں جبکہ صاف شفاف انتخابات کی یہ بنیادی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ اورالیکشن کمیشن کا یہ عزم صمیم” کہ بے رحمانہ جانچ پڑتال ہوگی“ کہیں صدا بصحراتو ثابت نہ ہوگا؟ ایسا عزم کھوکھلا تو نہیں؟ سیاستدانوں کا آئین کی شق 62/63 کو آڑے ہاتھوں لینااور اس کا تمسخر قوم کو زچ کرناہی تو ہے ۔ ریٹرننگ افسر کی سطح پر تو جھوٹے، خائن، کرپٹ، لیٹروں سے صرف ِ نظرہوچکااور قوم کوبھیڑیوں کا ترنوالہ بنانے کی تیاری کا پہلا مرحلہ بحفاظت مکمل ہوا۔
بیرسٹراعتزازاور اس قبیح کے سیاستدان بذلہ سنجی کے لیے عظیم رہنما کوکیوں تختہ مشق بنا رہے ہیں۔ اعتزاز احسن توسلجھا ہوا تعلیم یافتہ شخص تھا۔گراوٹ اس انتہا تک پہنچ گئی ہے کہ قوم کے عظیم رہنما کو اپنی بساط اور اوقات پر پرکھ رہے ہیں ۔ کیا کبڑے اپنے قد کے خم نکالنے کے لیے عظیم رہنما میں خم ڈال رہے ہیں۔ٹھگنوں کو کیا پتہ کہ قائداعظم کے نزدیک آئین کے تقدس کی پامالی تو دور کی بات روزمرہ کا ایک معمولی قانون توڑنے کا تصور بھی عبث تھا۔ کیا کہیں بیرسٹر صاحب کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ 62/63 کی موجودگی میں قائداعظم ہمارے سیاستدانوں کی طرح جھوٹ، خیانت، کرپشن، ٹیکس چوری، پارٹی چندہ خوری، بدکرداری، شراب نوشی جیسے کام کرتے اور پھر سیاست کرنے پر بھی مصر رہتے؟ بیرسٹر اعتزاز پہلے ہیں نہ یہ بات پہلی دفعہ کی ۔اس فنکاری میں وہ اکیلے بھی نہیں ہماراسیاسی قبیلہ اور اشرافیہ قائداعظم کیا خدانخواستہ قرآن اور پیارے رسول ﷺ کی تعلیمات کوبھی بوجھ اور اپنے اعمال میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ اے میرے مالک قوم جہلا اور بدنیت لوگوں کے رحم وکرم پرکب تک رہے گی؟ المدد یااللہ المدد ۔ ان اٹھا ئی گیروں سے کوئی نجات کا وسیلہ بنا۔ وطن عزیز کو بہت گھاؤ لگ چکے اب تو گھائل ہونے کو ہے ۔
پچھلے کالم میں ولیم مرٹز(William Mertz: 1918-1973) کا ایک معمولی حوالہ دیاتھا۔ایک گمنام امریکی طالب علم جو 1949 میں University of Pennsylvaniaسے اپنی ڈاکٹریت کا آغاز کرتا ہے تو تحقیق کے لیے موضوع ”جناح کا سیاسی کیریئر “ منتخب کرتا ہے۔ 1952 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کرتاہے تو کیا اجاگر کرتا ہے کہ” جناح نے ٹوٹتے ہندوستان کو دیکھ کردوقومی نظریہ کی گاڑی نہیں پکڑی بلکہ مسلم آئیڈیالوجی کوذہن و جاں کا حصہ بنانے کے بعد دو قومی نظریہ کی گاڑی پکڑی“۔یہ بات ہزاروں میل دور بیٹھا گمنام طالب علم جو امریکہ سے باہر نکلا نہیں اور بے شمار مواد موجود نہ رسائی ممکن،یہ بات جان گیا۔ دلچسپ بات کہ کراچی کے ڈاکٹر رضا کاظمی نے محنت شاقہ کے بعد اس مقالہ کوپہلی دفعہ جھاڑ پونچھ کر 2010 میں سورج کی روشنی دکھائی اور کتابی شکل میں عام کیا ۔ یہاں یہ بات اہم کہ عظیم رہنما کا سکہ بند سوانح نگار ہیکٹر بلیٹو(Hector Bolitho) جس کو وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1950 میں حکومت پاکستان کی طرف سے دعوت دی تاکہ قائداعظم کے حالاتِ زندگی مرتب کیے جا سکیں۔ بلیٹو کی لکھی بائیو گرافی جو اس وقت تک مستند اور جامع سوانح حیات سمجھی گئی جب تک کہ سٹینلے وولپرٹ کی قائداعظم پر تحقیق اور تخلیق ”جناح آف پاکستان“ عظیم قائد کی زندگی پر لکھی کتابوں کی معراج ہے منظرعام پر نہ آئی تھی۔ بلیٹو کا ذکر ولیم مرٹز کے ساتھ صرف اس لیے کہ نوجوان محقق بلیٹوکی کتاب سے پہلے ہی اپنا مقالہ جمع کرا چکا تھا جبکہ بلیٹو نے 1952 میں قائداعظم کی سوانح مکمل کرنے کے بعد(IN QUEST OF JINNAH)میں اپنی مشکلات کچھ یو ں بیان کیں کہ ”جناح کی زندگی کا احاطہ کرنے کے لئے انتہائی محدود مواد میسر تھا اوراس پرمستزاد کئی اہم شخصیتیں تعاون سے انکاری چنانچہ سوانح حیات کو اس سطح تک نہ پہنچایا جا سکا۔ جو جناح کے شایانِ شان ہو سکتی تھی“ ۔قائداعظم نے اپنی ذات کومقدم جانا ہی نہیں۔ زندگی مقصد کے لیے وقف، کردارکے اعلیٰ نمونہ کی ذاتی اور نجی زندگی کا بڑا حصہ تو دبیز پردوں سے پوری طرح باہر آ نہ سکا البتہ جب رخصت ہوئے تواپنی سیاست پوری طرح آشکار کر گئے ۔ اسٹینلے وولپرٹ کی قائداعظم پر شاہکار سوانح حیات پر صرف اتنا تبصرہ کہ خفیہ دستاویزات بھی منظر ِ عام پر آچکی تھیں۔تین براعظم کھنگالے ،لائبریریاں چھان ڈالیں۔ آرکائیوز تک دسترس حاصل تھی۔سٹینلے کی شاہکار سوانح ولیم مرٹزکا امتیاز اس لیے نہ چھین سکی کہ 1952 میں ولیم بغیر کچھ جانے وہ کچھ جان گیا جو آج ہمارے بالشتیے اور کرپشن کا قطب مینارسیاستدان چار سوچھائے قائد کے بارے میں کچھ نہ جان سکے ۔ نوجوان محقق ولیم کا حاصل مطالعہ فقط اتنا کہ
1۔کردار ہمالیہ جیسا بلند اور مضبوط جبکہ فہم و فراست سمندر جیسی وسیع۔ 2۔آئین اور قانون کے دائرے میں جناح جیسی سیاسی جدوجہد کی نظیر سیاسی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔3۔قائداعظم نے بیک وقت انگریزاور ہندو کانگرس کو سیاسی طور پر بے بس کر دیا اور ان کی فاش غلطیوں پر ان کو کڑی سزا دی۔ 4۔گو کہ علامہ اقبال نے الٰہ آباد کے خطبے میں دو قومی نظریہ کے خدوخال واضح کر دئیے تھے ۔جناح نے 1938 میں اس کویکسر نئے اندازسے ایسا متعارف کرایا کہ مسلمانانِ ہندکو ازبر ہوگیا۔
62/63 کی زد میں آئے کرپٹ سیاستدانوں کو اپنے منہ پر زناٹے دارتھپڑمارنے چاہئیں۔قومی رہنماؤں کی شق 62/63 پر کھلبلاہٹ سمجھ میں آتی ہے ۔ حضور یہ شرط چند سو افراد پرجو مملکت خداداد کی عنانِ اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں ان کو شق 62/62 پر پورا اترنا ہوگا۔
آج ننگ ِ دین، ننگِ ملت، ننگ ِوطن پرویز مشرف نے مملکتِ خداداد میں ایسے قدم رنجہ فرمایا کہ استقبالیہ میں عوام آئی نہ خراش ۔برادرم سلیم صافی کو جیو پر انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے کہ ”میں 62/63 پر پورا اترتا ہوں“۔ دین، آئین اوراداروں کی ایسی تضحیک۔دوسری طرف مشرف پرغداری کامقدمہ چلانے کا واویلا کرنے والے قائدین چپ سادھے بیٹھے رہے ۔ شاباش ”عزیزی“ چند ہفتے پہلے جب اس خبر کا بھانڈا پھوڑا تھا کہ خلیجی ملک میں میاں نواز شریف کو مشرف بہ مشرف کروایا گیا تو کئی کم فہم دوست جو مبالغے کی تنخواہ لیتے ہیں فرمانے لگے کہ میاں صاحب نے مشرف کی ”ڈمی“ کو گلے لگایاجس پر خاکسارنے بے پر کی اڑا دی۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی ہماری سیاست کے سارے فنکار ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہی انکشافات تو وکی لیکس میں تھے۔ وکی لیکس نے جن سیاستدانوں کے منہ پر کالک ملی کیا اس کو دھویا بھی جائے گا؟۔الیکشن کمیشن کا فرمان سر آنکھوں پر کہ بے رحمانہ جانچ پڑتال ہوگی۔آثاردکھائی نہیں دیتے ۔ ریٹرننگ آفیسرز نے کثیر تعداد میں کلین چٹ دے دی ہے اور الیکشن کمیشن کا بالائی نظام بھی مشکوک دکھائی دیتا ہے ۔اگراس دفعہ کڑی گرفت نہیں تو کبھی نہیں۔
شِق باسٹھ تریسٹھ نے توپابند کر دیا ہے ۔عزت مآ ب چیف جسٹس صاحب، قابل احترام الیکشن کمشنرصاحب کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی پاسداری بھی ہوگی؟ قوم توجیحات میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ ناجائز جائیدادیں، خیانتیں، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، بینک ڈیفالٹس، قومی وسائل کا ضیاع ، نااہلی، سیاسی ساکھ کی بحالی میں 100 ارب کی جنگلہ ایکسپریس ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔ دو چار سو لیٹروں کا قلع قمع کردیااوربڑے بڑے مگرمچھوں کو پکڑلیا تو ملک میں جشن ہو گا اور ہر شہری رقصاں ہو گا۔کم باکر کی ”Taliban Shuffle “ اور ریمنڈ بیکر کی Capitalism's Achilles Heel بڑے بڑے قومی رہنماؤں کا قلع قمع کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہمارے پیشہ ور دانشور دلائل کا انبار لگا رہے ہیں کہ 62/63 پر ”مٹی پاؤ“ اور آگے چلو۔ اگر 62/63 کی قبر بنے گی تو وطن عزیز کی فاتحہ خوانی پر منتج ہو گی ۔ اگر جانچ پڑتال میں توسیع کرنی پڑے تو سودا برا نہیں۔ حضور جعلی ڈگریاں تو ٹپ آف دی آئس برگ ہیں۔کرپشن کا سمندری تودہ تو عمیق گہرائیوں میں ہے۔ اگلے چند دن اہم ہیں کیا قائداعظم کے پاکستان میں امن، انصاف، دیانت، سچائی اور تبدیلی ممکن ہے؟کیا قومی اداروں کی پہلی ترجیح ملک ہے یا کوئی اور مفاد؟ نااہل لیٹروں کی واپسی چشمِ تصور ہی میں دل دہلا دیتی ہے۔” بے رحم جانچ پڑتال “ کا نعرہ رس گھول رہا ہے ۔ عمل کر کے دکھانا ہو گا۔قیادت کا درجہ حاصل کرنے کے لیے بیرسٹر اعتزاز صاحب سمیت سارے امیدواروں کو 62/63 کی چھلنی سے گزرنا ہوگا۔دن دیہاڑے ملک کو برباد کرنے ولے جانچ پڑتال کے عمل سے پاس ہوگئے تو اناللہ وانا الیہ رجعون۔ پھر عوام سے یہی اپیل ہے کہ ووٹ جمشید دستی جیسوں ہی کو دیں اورچوری لوٹ مار میں سیاسی مافیا کا حصہ بن جائیں۔ اگرکل کے سیاستدان ہی ہمار اکل ہیں تو ملک تاریک راہوں میں ہی بھٹکے گا اور شفاف انتخابات ایک تہمت ہی ہوں گے۔عزتِ مآب چیف جسٹس صاحب 62/63 اسی آئین کا حصہ جس کا آپ نے حلف لیا ہے ۔اس کوروح کے مطابق (Letter and Spirit)نافذ کرنا آپکی آئینی ذمہ داری ہے۔
تازہ ترین