• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کا عالمی بحران انسانی تاریخ میں ریکارڈڈ دبائو جتنا ہلاکت خیز تو نہیں، تاہم اس کا دائرہ پورے عالمی معاشرے پر محیط ہے، سمندروں میں دور افتادہ آباد جزائر تک اس کی زد میں آ گئے ہیں۔ جدید اور اس سے قبل کے مختلف ادوار کی تاریخ میں بھی ایسی وبائوں کے حوالے ملتے ہیں جن میں لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ مختلف النوع وبائوں میں ہلاک ہو گئے۔ امریکہ یورپ، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، چین اور کئی دوسرے خطے ہلاکت خیز وبائوں کی زد میں آتے رہے ہیں لیکن جاری کورونا بحران نے ایک تو بیک وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، دوسرے اس وبا میں مبتلا ہونے سے محفوظ بھاری اکثریت ہی نہیں، بلکہ ہر قوم بلا امتیاز امیر و غریب، ہر ہر شہری اس سے بری طرح متاثر ہے، اور ملک کی اقتصادی تباہی کا سلسلہ ایسا جاری ہے کہ اس سے قبل اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ریکارڈڈ تاریخ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنی ہلاکت خیز وبائیں آتی رہیں، ان کا کوئی سیاسی مذہبی پہلو نہیں رہا، اور اِن میں کبھی کوئی بلیم گیم نہیں ہوئی۔ آج جبکہ کورونا وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اسکے کتنے ہی سیاسی، مذہبی اور معاشی پہلو واضح ہو رہے ہیں، جبکہ آج کی دنیا پہلے کسی بھی زمانے اور علاقے سے زیادہ مہذب اور احترام آدمیت و انسانیت کی دعویدار ہے لیکن اس کے متوازی کورونا وبا، میں یہ بڑے سوال اٹھے کہ یہ مین میڈ ہے اور اس کا ذمہ دار یہ نہیں وہ ملک ہے۔ بھارت میں تو سرکاری کارندوں نے اس کا الزام مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کی بھارت میں سرگرمیوں پر جڑ کر پوری مسلم کمیونٹی سے ایسا سلوک شروع کر دیا جیسے بھارت میں تبلیغی جماعت والے ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو تو اپنی دال روٹی اور روزگار کی پڑ گئی ہے، لیکن وہ ممالک جہاں طعام و تعیشات کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں ٹن قابلِ استعمال خوراک بھی ضائع کر دی جاتی ہے اور ایک ایک فرد کا بجٹ ترقی پذیر معاشروں کے دس دس بیس بیس فیملی یونٹس کے مقابل پچاس پچاس سو سو گنا زیادہ ہوتا ہے، وہاں سے جاری عالمی وبا کے پھیلائو پر ایسی بلیم گیم شروع ہوئی جو ملک کے ملک پر الزام نہیں بلکہ ایک ہی بڑے طاقتور اور خوشحال ملک کے حکمران باہم، سیاستدان، سائنس دان اور محقق اور سوشل سائنٹسٹ بھی آپس میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے پر وبا پھیلانے، بڑھانے اور نہ سنبھال پانے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا کے وہ ممالک جن میں اظہارِ رائے کی کافی حد تک آزادی ہے، اس بلیم گیم میں تقسیم ہیں، جس میں بھارت اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک خصوصاً شامل ہیں۔ اس پس منظر میں دنیا بھر میں ایک محدود لیکن اہم ترین اور حساس طبقہ ایسا بھی ہے جو انسانی جان کے تحفظ کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ممکنہ انسانی، دنیاوی اور پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں جانوں کا نذرانہ پیش کر رہا ہے۔ بلا امتیاز رنگ و مذہب و نسل جاری عالمی وبا میں آج کے جدید عالمی معاشرے کا سب سے حساس، مقدم و محترم طبقہ ہے جو جانیں دے بھی رہا ہے اور اپنے بیوی بچوں اور اہل خانہ سے ماورا، تحفظ انسانیت کے عالمی مشن پر جانیں قربان کر رہا ہے۔ ہم مسلمانوں کا تو عقیدہ اور ہماری تعلیمات اور اسلامک لٹریچر کا حصہ ہے کہ وبا میں جان سے جانیوالا شہادت کا رتبہ پاتا ہے، یوں ہمارے وہ ڈاکٹر جو فرنٹ لائن پر کورونا سے لڑتے اپنی جان قربان کر گئے وہ تو اللہ کے ہاں شہادت کا انعام پائیں گے ان شاء اللہ۔ ان میں مانچسٹر کے اسپتال مانچسٹر رائل انفرمری میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فرقان علی بھی شامل ہیں جو اپنی بیگم ڈاکٹر فائزہ صدیقی کے ہمراہ بارہ چودہ سال قبل لندن میں ہی میڈیکل پریکٹس کرتے، اپنے ضعیف والدین کی نگہداشت اور بچوں کو اسلامی اور پاکستانی طرزِ زندگی میں پرورش کے لئے برٹش نیشنیلٹی کے باوجود کراچی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے صرف معاشرے کی حد تک ہی نہیں، خود کو بھی بطور مسلم والدین اور شہری کا نمونہ بننے کا ارادہ باندھا اور ڈاکٹر فرقان، جو برطانیہ سے پلاسٹک سرجری میں تعلیم یافتہ تھے اور وہاں کئی سال پریکٹس کر چکے تھے، کراچی آ کر اپنی پریکٹس کو پیشہ ورانہ کے ساتھ مشنری بنانے کا ماڈل بنایا۔ انہوں نے یہاں فیلو شپ بھی کی، جسے برطانوی اداروں سے کر کے بھی اپنی فیلو شپ برطانیہ سے بھی حاصل کرنے 6ماہ قبل ڈاکٹر عرفان برطانیہ گئے، کورونا وبا کے آغاز پر ہی انہیں فرنٹ لائن ٹیم میں شامل کر لیا گیا جہاں مریضوں کا علاج کرتے وہ خود کورونا میں مبتلا ہو کر یکم اپریل کو شہید ہو گئے۔

ڈاکٹر فرقان نے کراچی اور اندرون سندھ میں اس اعتبار سے بہت نیک نام کمایا کہ پلاسٹک سرجن ہونے کے ناتے انہوں نے پیدائشی کٹی پھٹی ناکوں اور ہونٹ (کلف پس، کلف پیلٹ) والے غریب بچوں بڑوں کی مفت سرجری کر کے ان کی بدنمائی اور جزوی معذوری کو ختم کرنے کا مشن شروع کیا۔ خود اپنی سائیڈ منی سے ایک فنڈ قائم کیا جس میں اندرونِ سندھ اور کراچی میں ایسے غریب مریضوں کا خود علاج معالجہ کرتے اور ہفتے میں ایک دن میر پور خاص جا کر وہاں اپنا کیمپ لگاتے۔ فرقان اپنے صاحبان ثروت با اعتماد دوستوں کو بھی اس طرف مائل کرتے اور ان کا تعاون حاصل کرتے۔ انہوں نے ایسے بھی سینکڑوں مریضوں کو بحال کیا جو پان گٹکے اور ایسے دوسرے مہلک تمباکو وغیرہ کے استعمال سے اپنے منہ اور زبان شدید متاثر کر چکے تھے۔ مجھ سمیت ہم چار بھائی بہن کی نعمت سے محروم رہے۔ ہماری چچا تایا زاد بہنوں نے ہمیں بہن کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ فرقان میری تایا زاد بہن طلعت منصوری کا بیٹا اور میرا بھانجا تھا۔ ہمارا فخرِ خاندان تھا۔ مجھے طلعت باجی اور عرفان صدیقی بھائی سے تعزیت کرنا نہیں آتی (تبھی تو کالم کا سہارا لیا) کہ کیسے کروں؟ کیا کہوں؟ سوائے اس کے کہ ’’اس نے شہادت عظمیٰ پائی‘‘ ہم سب اہل خاندان اب تیری ڈھارس ہیں۔ ڈاکٹر فائزہ نے جو کراچی میں میڈیکل کنسلٹنٹ ہے، اپنے سرتاج کے اس رتبے سے اپنے جینے اور ﷲ کی رضا پر سر خم تسلیم کا اعتماد تمام احتیاط لیکن گہرے جذبات کے ساتھ ادا کیا۔ خالصتاً ذاتی حوالے سے ذاتی جذبات کے اظہار پر معذرت اور دنیا بھر کے اُن ڈاکٹروں اور ان کے معاونین کو سلام جو فرقان کی طرح جانیں دے گئے اور خدمات دے رہے ہیں۔ ﷲ اکبر!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین