• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے کالم کو میں21المبارک سے منسوب کرتا ہوں، جو ہر سال حضرت علیؓ کے یوم شہادت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کا سبب تاریخ، فلسفہ اور سیاسیات کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میرا وہ ادراک ہے، جس کی بنیاد پر میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ آج کی دنیا خصوصاً مسلم دنیا کو حضرت علیؓ ابن ابی طالب کی ازسر نو تفہیم کی ضرورت ہے۔

ہم مسلمانوں نے اپنے مشاہیر کو مذہبی اور مسلکی عقائد کی کسوٹی پر عظیم تر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ سے دیگر مذاہب اور مسالک کے لوگوں پر ان کی حقیقی عظمت افشا نہیں ہو سکی۔

یہی سبب ہے کہ ہم اپنے عہد کی فلسفیانہ موشگافیوں کو سلجھانے اور اپنے عہد کے پیچیدہ مسائل کی توضیح کے لیے مجبوراً غیرمسلم اکابرین فلسفہ و دانش سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے مشاہیر اور اکابرین کو عقائد کے غلاف میں دنیا سے چھپا رکھا ہے۔

ہمیں اس کیفیت سے نکل کر اپنے مشاہیر خصوصاً حضرت علیؓ کی موجودہ حالات میں مذہبی اور مسلکی عقائد سے بالاتر ہو کر تفہیم کرنا ہو گی۔

اس کالم کا مقصد وہ فضائل علیؓ بیان کرنا نہیں، جو ہم مختلف مسالک کے لوگ اپنی اپنی دانست میں بیان کرتے ہیں۔ میں پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل اور قانون دان ہوں اور نیز ایک ترقی پسند سیاسی کارکن ہوں۔ قانون، سیاست، تاریخ اور فلسفہ کا مطالعہ میری ضرورت رہا ہے۔

حضرت علیؓ تاریخ کی ان چند عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ میں نے قانون اور فلسفہ کے’’ کئی پیچیدہ امور کی عقدہ کشائی کے لیے ان سے رجوع کیا ہے۔ صرف میں نے ہی نہیں بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خطوں، مذاہب اور مسالک کے لوگوں نے سیدنا علیؓ کے عدالتی فیصلوں سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ وہ تاریخ کے بہت بڑے منصف (جج) تھے۔

یہ ٹھیک ہے کہ دنیا میں کئی فلسفہ ہائے قانون (Jurisprudences) کو تسلیم کیا جاتا ہے، جن میں ایک اسلامی فلسفہ قانون بھی ہے، جسے ہم اسلامی فقہ بھی کہتے ہیں۔ حضرت علیؓ نہ صرف اسلامی فقہ کی ایسی مکمل تشریح کرنے والے فقیہ تھے جن کی وجہ سے اس فقہ کے اصولوں کو غیر مسلم دنیا کی عدالتوں میں بھی تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ وہ ایک ایسے منصف بھی تھے۔

جن کے فیصلوں سے نظائر کے طور پر رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ کوئی شخص ایک عظیم منصف اور فقیہ تب ہی بن سکتا ہے جب اسے تاریخ کا حقیقی ادراک ہو اور وہ اپنے عہد کے تمام علوم سے عالمانہ شناسائی کا حامل ہو۔ حضرت علیؓ بہت بڑے عالم تھے، انہیں طب، فلسفہ، سیاسیات، کیمیا، طبعیات، فلکیات، حیاتیات، علم الکلام سمیت کئی علوم پر دسترس حاصل تھی جو ان کی گفتگو میں فصاحت و بلاغت سے عیاں ہے۔

اپنے علم کی بنیاد پر وہ مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں‘‘۔ حضرت علی خود فرماتے تھے’’ پوچھو، مجھ سے پوچھو، قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں‘‘۔

میں نے سیدنا علیؓ سے سیکھا ہے کہ علم عقیدے پر ڈٹے رہنے کا نام نہیں ہے، علم جہالت کے لیے دلائل حاصل کرنے کا نام بھی نہیں ہے۔ علم وہ ہے، جو عرفان میں اضافہ کرے اور حق کی تلاش کا راستہ ڈھونڈ کر دے۔

تاریخ اور سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں حضرت علیؓ کو ایک بہترین حکمران اور منتظم تصور کرتا ہوں۔ اس عہد کو اس حوالے سے فضیلت حاصل ہے کہ انہوں نے حکمران کو قابلِ احتساب بنانے کا جو نظام وضع کیا وہ بعد ازاں چلایا جاتا تو ان کی شہادت کے بعد اسلامی سلطنت میں طرزِ حکومت خلافت سے ملوکیت میں تبدیل نہ ہوتا۔

ہم تاریخ کے بہت سے حقائق کا تذکرہ کرنے سے اس لیے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ ان سے ہمارے عقائد پر ضرب پڑتی ہے یا ان سے ہماری مسلکی ’حقانیت‘ پر سوالیہ نشان آ جاتا ہے مگر حقائق تو حقائق ہیں۔ چاہے ہم انہیں کبھی تسلیم نہ کریں۔میں نے ’’نہج البلاغہ‘‘ کے مطالعہ سے اِس عہد کے نفاق اور فتنوں کا ادراک کیا ہے۔

حضرت علیؓ نے اس نفاق اور انتشار سے امت کو بچانے کے لیے تاریخی تناظر میں جو کوششیں کیں، ان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ حالات کو سلجھانے کے لیے ان کی صلح جویانہ اور مدبرانہ اپروچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے شخص عبدالرحمٰن ابن ملجم کو گرفتار کرکے کچھ لوگوں نے غصے میں اسے تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو آپؓ نے منع فرمایا اور اسے شربت پلانے کا حکم دیا کیونکہ خوف سے اس کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔

آپؓ نے اپنے بڑے بیٹے حضرت امام حسنؓ کو تاکید کی کہ میرے قاتل کو سزا کے طور پر صرف اتنی ضرب لگانا، جتنی اس نے مجھے لگائی اور خبردار اگر میں اس دنیا سے چلا جائوں تو میرے قاتل کو اتنی ہی سزا دی جائے، جس کا وہ مستحق ہے اور میرے قتل کو ایسا معاملہ نہ بنایا جائے جس سے تفرقہ پیدا ہو۔آج بھی مسلم دنیا تفرقے اور نفاق کا شکار ہے۔

جس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں اور جس کی بنیاد پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردوں کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں بھی مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کا ایسی بے دردی سے خون بہایا کہ بغداد کی گلیوں میں ہونے والی خونریز لڑائیاں بہت چھوٹی لگتی ہیں۔

عہد جدید کے بحرانوں سے نجات پانے اور عدل اور حکمرانی کا بہترین نظام قائم کرنے کے لیے آج علیؓ بن ابی طالب کے فکر و فلسفہ کی خود ازسر نو تفہیم کرنے اور دنیا کو بھی کرانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

تازہ ترین