• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سر سید کی شعوری عظمت کو ہم سب اس لئے سلام کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں جدید تعلیم پر لگا دیا لیکن ایسی تعلیم جو ذہنی کشادگی کے بجائے تنگ نظری یا نظریاتی گھٹن کا شکار کر دے اُس کو تعلیم کہنا تعلیم کی توہین ہے۔ آج اگر سر سید دوبارہ اس جہاں کا چکر لگاتے اور ہمارا نصاب پڑھ لیتے اور یہ بھی ملاحظہ فرما لیتے کہ یہاں فکری آزادی یا آزادیٔ اظہار کا بنیادی انسانی حق مانگنے والوں کو 34سال پرانے جعلی مقدمات میں جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اس پر ان کا جو ردعمل ہوتا وہ بھی ناقابلِ اشاعت قرار پاتا۔

درویش کی ذہنی آبیاری میں ذاتی مطالعہ و مشاہدہ کے علاوہ جن علمی شخصیات کا کردار رہا ہے ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔ جانے والی ہستیوں میں جن سے سیکھنے کے بھرپور مواقع ملے اور خوب بحثیں ہوئیں ان میں ڈاکٹر جاوید اقبال اور پروفیسر رفیق احمد کے بعد ڈاکٹر رشید جالندھری کا نام نامی نمایاں ہے۔ ڈاکٹر صاحب عصر حاضر کی بلاشبہ ایک بڑی علمی شخصیت و نابغہ تھے جن کی اردو، انگریزی کے علاوہ عربی ادب پر بھی نظر تھی۔ آپ جہاں دارالعلوم دیوبند اور جامعۃ الازہر کے فارغ التحصیل تھے وہیں آپ نے کیمبرج یونیورسٹی سے پروفیسر آربری کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ یوں جدت و قدامت کا امتزاج ہوتے ہوئے وہ غیر روایتی اسلوب میں سوچتے اور ماضی پرستی کے بجائے جدید، روشن اور لبرل سوچ کو ابھارتے۔ ربع صدی کے تعلق میں ان سے اَن گنت بحثیں ہوئیں اور سچائی تو یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کائنات کی بڑی بڑی حقیقتوں کو پا چکے تھے اور درویش کے ساتھ انہوں نے دانائی و معرفت کے وہ حقائق بیان کرنے میں بھی کوئی جھجک یا مصلحت نہیں اپنائی جن کا اظہار وہ عامۃ الناس کے سامنے نہیں کرتے تھے۔ سچائی کے مقابلے وہ کسی تقدس کے یرغمالی نہ تھے۔

قرآن اور تفسیر قرآن میں ڈاکٹر رشید جالندھری کا خاص میلان تھا، اسی قابلیت پر وہ کیمبرج پہنچ گئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنا دلچسپ واقعہ سنایا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب میں اختلاف رائے اور مثبت تنقید کو کس حد تک قابل ستائش خیال کیا جاتا ہے۔ وہ قاہرہ سے لندن گئے تو وہاں کے اسلامک سنٹر میں ایک روز کیمبرج یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر آربری لیکچر دینے تشریف لائے ہوئے تھے، جالندھری صاحب کے بقول ’’اسلامک سنٹر لندن کے ہیڈ ڈاکٹر عبداللطیف عوض نے پروفیسر آربری سے میرا تعارف کروایا تو میں نے پروفیسر صاحب سے کہا کہ آپ نے قرآن کا انگریزی میں جو ترجمہ کیا ہے بعض مقامات پر ان میں سقم ہیں، انہوں نے پوچھا کہاں؟ تو میں نے ایسے مقامات کی نشاندہی کر دی اس پر وہ اتنے خوش ہوئے کہ مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے کیمبرج آنے کی دعوت دیدی۔ یوں ڈاکٹر صاحب کو آگے بڑھنے کے مواقع مل گئے۔ ان کے الفاظ تھے ’’اہل مغرب کے برعکس ہمارے لوگوں کے رویے ایسے ہیں کہ کسی پر اس نوع کی تنقید کر دو تو مرنے مارنے پر تل جاتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر صاحب سے خاکسار کی اپنائیت میں جہاں گہری فکری و نظری بنیادیں تھیں وہیں پسندیدہ و ناپسندیدہ شخصیات بھی ملتی جلتی تھیں جو گاندھی اور پنڈت نہرو سے لے کر ڈاکٹر طہٰ حسین تک وسیع تھیں۔ وہ جمال عبدالناصر اور محمد حسین ہیکل کی باتیں کرتے ٹیگور، چرچل اور نیلسن منڈیلا تک پہنچ جاتے۔ اتاترک کی فکری و عملی عظمتوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے وہ غالب پر آ جاتے اور مزید آگے بڑھ کر تصوف کی باریکیاں سلجھانے لگتے۔ علمائے دیوبند کی سادگی و سچائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ اخوان المسلمون کی شدت پسندی کو زیر بحث لے آتے۔ ابن عربی اور غزالی کو چھوڑتے تو براستہ پوپ کارلائل، شیکسپیئر اور سر برٹرینڈرسل تک پہنچ جاتے۔ بہت مشکل ہو جاتا کہ ان کے ساتھ منضبط گفتگو کیسے کی جائے اور کس طرح اپنی وکٹ پر لایا جائے۔ اصل بات یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب اتنے وسیع المطالعہ تھے کہ جس طرح کسی کی تحسین میں بالعموم کہا جاتا ہے کہ بحر العلوم یعنی علم کا سمندر، ڈاکٹر صاحب کے متعلق بغیر کسی تعلّی کے درویش اگر یہ کہے تو اس میں مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ کسی حد تک طبیعت کے غصیلے تھے لیکن عمومی رویہ عاجزی، انکساری اور ملنساری کا ہوتا تھا۔ طبعاً کم آمیز تھے زیادہ رونق یا میل جول سے دور رہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ عمومی اور روایتی ملاقاتوں سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور اسٹڈی و تحقیقی کام کا نقصان۔ البتہ درویش کے ساتھ خصوصی شفقت و محبت تھی جب چاہے اور جتنی دیر چاہے ملے۔ ضیاء دور میں آپ مختلف مواقع پر زیر عتاب بھی رہے اس سلسلے میں عدالتی چارہ جوئی کے حوالے سے کہتے کہ میں اگر اس طرح کے جھنجھٹ میں پڑوں گا تو پھر تحقیقی کام سے تو گیا۔ مجھ سے ریسرچ ورک کروا لو یا اس طرح کے جھمیلوں میں الجھا دو۔

ڈاکٹر رشید جالندھری یونیورسٹی کے پروفیسر، ریسرچ میگزین کے ایڈیٹر، اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر، فیڈرل شریعت کورٹ کے جج اور مدتوں ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر رہے۔ اتنے بڑے ریسرچ اسکالر رہے اتنی معرکہ آرا کتابیں لکھیں لیکن کیسے فقیر منش تھے کہ حالیہ دنوں جب اسی لاہور شہر میں وفات پائی تو کسی اردو اخبار میں کوئی ایک کالمی خبر تک نہیں لگی۔ اس سے سماجی بے حسی اور ہمارے میڈیا کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین