• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خطبہ شروع ہونے سے چند لمحے قبل میں جاپان کی اس معروف ترین مسجد میں داخل ہو چکا تھا جہاں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی میرے ساتھ مسجد کے ہال میں داخل ہو رہے تھے، مسجد کے ہال میں داخل ہونے سے قبل میں نے ہال کے بیرونی حصے میں رکھی میز سے آج دیئے جانے والے خطبے کی انگریزی میں تحریری شکل میں موجود کاغذی کاپی اٹھائی اور ہال کے اندر داخل ہوگیا ، انتہائی دبیز قالین ، مسحور کن خوشبو جبکہ چاروں اطراف میں انتہائی اعلیٰ خطاطی کے ذریعے قرآنی آیات ایک خوبصورت منظر پیش کررہی تھیں ، چند لمحوں میں ترکی سے تعلق رکھنے والے امام مسجد جو انتہائی جاذب نظر شخصیت کے مالک تھے اور اس وقت بہترین پوشاک میں ملبو س تھے بڑے باوقار انداز سے مسجد کے ہال میں داخل ہوئے اور منبر کی جانب بڑھ گئے ، میرے ساتھ بیٹھے ہوئے جاپانی مسلمان کے ہاتھ میں آج دیئے جانے والے خطبے کی جاپانی زبان میں کاغذی کاپی موجود تھی جبکہ عربی زبان میں دیا جانے والا خطبہ بھی نمازیوں کے لئے اولین ترجیح کے ساتھ دیا جارہا تھا۔ امام صاحب نے باری باری تینوں زبانوں میں خطبہ جمعہ پیش کیا ،جاپانی ،انگریزی اور عربی زبان میں جمعہ کے خطبہ سے ترک مسجد کی انتظامیہ کی دانشمندی کا اندازہ ہو رہا تھا جن کا مقصد تھا کہ جو لوگ مسجد میں موجود ہیں ان کو خطبہ جمعہ کا مطلب بھی سمجھ آئے۔ میں اس وقت جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے وسط میں واقع ترک جامع مسجد جسے ٹوکیو جامعی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے میں نماز جمعہ کے لئے موجود تھا، بلاشبہ یہ مسجد جاپان میں اسلام کی پہچان بن گئی ہے جہاں دور دور سے جاپانی شہری نہ صرف اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں بلکہ بڑی تعداد میں جاپانی اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی یہاں کے طریق کار اور دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام بھی قبول کیا ہے۔ جامع مسجد ترک یا ٹوکیو جامعی عربی اور ترک فن تعمیر کا شاہکار ہے جو جاپان میں دین اسلام کو جاپانی شہریوں میں متعارف کرانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ ٹوکیو میں واقع ترک مسجد کی خوبصورتی، طرز تعمیر اور عبادت کے طریق کار سے ہٹ کر جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ وہاں کے امام مسجد کا دینی اور دنیاوی طور پر بے حد تعلیم یافتہ ہونا ہے ، مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے امام مسجد کو وہ پروٹوکو ل فراہم کیا جاتا ہے جس سے محسوس ہو کہ امام مسجد کی دینی اور دنیاوی سطح پر اہمیت عام لوگوں سے زیادہ ہے دوسری جانب ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ جس آدمی کا دنیاوی رتبہ زیادہ ہے یا وہ خوشحال ہے یا وہ مسجد میں زیادہ عطیہ دیتا ہے وہ نہ صرف مسجد انتظامیہ میں شامل ہوجاتا ہے بلکہ امام مسجد کو ذاتی ملازم بھی تصورکرنے لگتا ہے، بے شک ہر جگہ ایسا نہیں ہے تاہم اکثریت ایسی ہی مثالوں سے بھری پڑی ہے کئی دفعہ پاکستان اور جاپان میں بھی پاکستانی کمیونٹی کے زیر انتظام مساجد میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض افراد جو صرف اپنے پیسوں کے بل بوتے پر مسجد کی انتظامیہ میں شامل ہوتے ہیں یا امام صاحب کی تنخواہ کی ذمہ داری لے لیتے ہیں وہ اکثر فون کرکے امام صاحب سے جماعت نماز لیٹ کرالیتے ہیں تاکہ وہ جماعت میں شامل ہو سکیں۔ اس طرح کے کئی اور واقعات پاکستان کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں عام دیکھے جاسکتے ہیں جہاں امام مسجد کو وہ خصوصی حیثیت حاصل نہیں ہے جو ان کو دین اسلام کا ایک خاص مقام یعنی امام مسجد ہونے کے ناتے ملنی چاہئے تھی ۔ہمارے معاشرے میں ایک پٹوار ی ، اسسٹنٹ کمشنر ، پولیس افسر یا دیگر سرکاری حکام کی تو حیثیت ایسی ہے جن کے آگے بڑے بڑے رئیس پانی بھرتے نظر آتے ہیں تاہم تھوڑا سا چندہ دیکر یہی رئیس امام مسجد کو ذاتی ملازم تصور کرکے ان کو ذاتی کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اس سلسلے میں انتہائی اہم رول ادا کر سکتی ہے جیسا کہ ہر بڑے شہر ، ضلعے اور قصبوں میں مساجد کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا جائے اور ان مساجد میں ایسے امام مسجد تعینات کئے جائیں جو نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی تعلیم کے اعتبار سے بھی بہترین صلاحیت کے حامل ہوں، ایسے امام مساجد کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے ذریعے چنا جائے اور ان کو بہترین تربیت کے بعد مساجد میں تعینات کیا جائے، ایسے تمام امام مسجد کو کم سے کم گریڈ سترہ میں تعینات کیا جائے جبکہ سرکاری رہائش اور گاڑی بھی حکومت کی جانب سے فراہم کی جائے تاکہ علاقے کا کوئی بااثر شخص امام مسجد کو اپنے دباؤ میں نہ لاسکے جبکہ علاقے کے شہریوں کو تمام اہم تعلیمی اور دیگر شناختی اسناد کی کسی بھی مرحلے پر تصدیق علاقے کی مسجد کے امام سے کرانے کا پابند بنایا جائے جبکہ ہر ضلعے یا شہر میں ایسی شوریٰ کونسل بھی تشکیل دی جائے جو ہر جمعے کو دیئے جانے والے خطبے کے مضمون کا انتخاب کرسکے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کی سوچ کی مشترکہ سمت کا تعین کیا جاسکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حکومت عالم دین اور امام مسجد کو اتنی عزت اور اختیار دینے میں کامیاب ہو گئی تو پاکستان کے آدھے سے زیادہ مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے جبکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جس ملک میں امام مسجد کو حکومت کی جانب سے اہمیت دی جاتی ہے، سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں وہاں عام آدمی بھی عالم دین اور امام مسجد کی عزت کرنے پر راغب ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں امام مسجد کو معاشرے میں خاص حیثیت حاصل ہے اور وہ اپنی تنخواہوں کے لئے کسی کمیٹی یا امیر شخص کی جانب دیکھنے کے لئے مجبور نہیں ہوتے، پاکستان میں اگر حکومت مساجد کی سرپرستی کرنے پر رضا مند ہوتی ہے تو اس احسن حکومتی اقدام سے وہ دو نمبر پیسے والے لوگ جو مسجد میں چند روپے چندہ دیکر امام مسجد کو ذاتی ملازم بناکر رعب جھاڑا کرتے ہیں وہ بھی عالم دین اور امام مسجد کی عزت کرنے پر مجبو ہوجائیں گے جبکہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص جس کے پاس دین اور دنیا کی بہترین تعلیم موجود ہے، جس کو حکومت کی جانب سے سترہ گریڈ کی ملازمت ، گاڑی اور گھر فراہم کیا گیا ہو ، وہ نہ کسی سے ڈرے گا اور نہ ہی عام اور معصوم لوگوں کو غلط راہ پر ڈالے گا جبکہ حکومت کے اس فیصلے سے ہمارے معاشرے میں موجود والدین اپنی ذہین اولادوں کو بھی مذہبی تعلیم زیادہ ذوق و شوق سے دلانے میں دلچسپی لیں گے۔ اس حوالے سے معروف عالم دین اور اسلامک سرکل آف جاپان کے سابق امیر برادر عبداللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عام گھرانوں میں یہ رواج جڑ پکڑ چکا ہے کہ اگر بچہ ذہین ہے تو اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنانا ہے اور اگر بچہ شرارتی ہے یا کند ذہن ہے تو اسے مدرسے میں داخل کرانا ہے۔ برادر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ایک ذہین بچہ جب ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا تو وہ بلاشبہ ایک اچھا ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا جبکہ اگر ہم ایک شرارتی اور کند ذہن بچے کو مذہبی تعلیم دلوائیں گے یا اسے عالم دین بنانے کی کوشش کریں گے تو اس کا نتیجہ بھی کوئی مثبت نہیں ہوگا لہذا اس وقت ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں ہم ذہین اور فرمانبردار بچے کو بھی مذہبی تعلیم دلوائیں ایسے بچوں کو عالم دین بنوائیں جنہیں دنیا کی بھی بہترین تعلیم حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہو تاکہ ہمارے معاشرے کو بہترین عالم دین و دنیا مل سکے جو ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے تاہم اس وقت یہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عالم دین اور امام مسجد کے لئے ایسی ملازمتیں اور سہولتیں میسر کرے کہ جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے انہیں ڈاکٹراور انجینئر بنانا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح وہی ماں باپ اپنے بچوں کو دنیا اور آخرت کے بہتر مستقبل کے لئے عالم دین و دنیا بنانے کی خواہش کریں۔
تازہ ترین