• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم آپ کو اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ کل ہمیں ہمارے گھر والوں سمیت مار دیا جائے گا‘‘۔

’’ ایک پڑوسی ہی پورے پڑوسی خاندان کا قاتل کیسے بن جاتا ہے؟‘‘۔

’’ پتھر باتیں کرتے ہیں۔ پہاڑیاں غم بانٹتی ہیں‘‘۔

’’ میں اپنی ماں کے قاتل کے ساتھ دفتر میں کام کرتی ہوں‘‘۔

’’ ہم اپنے ہولناک ماضی بھول کر تابدار مستقبل کے لیے قدم بڑھارہے ہیں‘‘۔

ہولناک نسل کشی کے بعد مثالی صلح ہوئی اور مفاہمت پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں کامیابی۔ یہ ہے افریقہ کے ایک ملک روانڈا کی کہانی۔

مجھے یہ ہزاروں میل دور بستی کیوں یاد آئی ہے۔ 8لاکھ انسانوں کے قتلِ عام کے لیے مال لگانے والا 17مئی کو پکڑا گیا۔ رمضان المبارک میں ’جیو‘ سے ہر روز ایک مکمل ڈرامہ ’مکافات‘ کے زیر عنوان دکھایا جاتا ہے۔ جو انجام کئی قسطوں کے بعد آتا ہے وہ اسی شام دکھا دیا جاتا ہے۔ اقبال یاد آتے ہیں:

دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات

26سال سے مختلف ملکوں میں چھپنے والے ہو تو قبیلے کے ایک بزنس مین 85سالہ فیلشین کیوگا کا روزِ مکافات آگیا۔ اقوامِ متحدہ کے ایک بین الاقوامی ٹریبونل نے 1997میں اس پر مخالف قبیلے ٹٹسی کے 8لاکھ بچوں بڑوں، عورتوں، نوجوانوں کو ہلاک کرانے کی مالی سرپرستی کا الزام عائد کیا تھا۔ آپ کے لیے اس خبر کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ یہ گرفتاری مجھے اس لیے اہم لگی کہ میں ایک عرصے سے ناقابلِ یقین نسل کشی کے بعد حیرت انگیز مفاہمت کے ساتھ ترقی کرنے پر روانڈا کے سحر میں مبتلا ہوں۔ اور لاک ڈائون کے دنوں میں امریکی مصنّف، صحافی اسٹیفن کنزر کی بہت ہی خیال انگیز تصنیف ’ایک ہزار پہاڑیاں‘ (A Thousand Hills) کے چار سو صفحات اتفاق سے 17مئی کی صبح ہی ختم کر رہا تھا۔ جب اس سفاک بزنس مین کی گرفتاری کی خبر آئی۔

کئی سال کی قتل و غارت گری سے گزرنے کے بعد روانڈا اب دو عشروں سے نظم و ضبط کی بہترین مثال ہے۔ آبادی کے کنٹرول میں چند سر فہرست ممالک میں شامل ہے۔ اب کورونا کی عالمگیر وبا کے دنوں میں بھی اس نے دن میں سخت لاک ڈائون اور رات میں کرفیو کے ذریعے اس وبا کو کامیابی سے پسپا کیا ہے۔ کُل متاثرین 289ہیں۔ جن میں سے 178صحت یاب ہو گئے۔ جس ملک میں روزانہ ہزاروں لاشیں گرتی رہی ہیں۔ وہاں کورونا ایک لاش بھی حاصل نہیں کر سکا۔ ہم روانڈا کو 1980اور 1990میں ہلاکتوں، سڑکوں پر کشتوں کے پشتوں کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اور اکیسویں صدی کے روانڈا سے ہم بےخبر ہیں۔ جہاں قاتل مقتولوں کے خاندانوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ اپنے ماں باپ بھائیوں کو اپنے سامنے ہلاک کرنے والے مجرم کو ایک بیٹی اپنے دفتر میں ہر روز دیکھتی ہے۔ حالات کا جبر تاریخ کا ستم اور جغرافیے کی سفاکی کسی کو دیکھنی ہو تو روانڈا کی کہانی پڑھے۔ اس بےمثال برداشت اور تحمل پر مبنی معاشرہ قائم کرنے والا ایک ہی شخص ہے جو فوجی بھی ہے سیاستدان بھی۔ 63سالہ پال کاگمے اب منتخب صدر ہے لیکن اس نے ظالموں اور قاتلوں کا راج ختم کرنے کے لیے باقاعدہ ایک باغی فوج تیار کرکے شہر در شہر آزاد کروائے۔تعلق ٹٹسی قبیلے سے ہے جو اقلیت میں ہے۔ 1994 کے 100دنوں میں اسی قبیلے کے 8لاکھ افراد مارے گئے۔ ہوتو 85فیصد اور ٹٹسی صرف 14فیصد ہیں۔ 

یوگنڈا، تنزانیہ، برونڈی اور کانگو کی سرحدوں میں گھرا، خشکی میںمحدود روانڈا اب ہر شعبے میں ترقی کررہا ہے۔ فی کس آمدنی 416ڈالر سے بڑھ کر اب2444ڈالر ہو گئی ہے۔ شاہراہوں، گلیوں کوچوں، دفتروں اور ہوٹلوں میں جب لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ اس وقت پاکستانی سفارتکار شہر یار خان کیگالی میں اقوامِ متحدہ کے سیاسی دفتر کے سربراہ کی حیثیت سے پہنچتے ہیں تووہ اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کو کیا رپورٹ بھیجتے ہیں’’ ہرطرف لاشے اور پنجر بکھرے ہوئے ہیں۔ منظر ہولناک، ماورائے عقل اور انتہائی لرزہ خیز ہے۔ اس کے بعد اور بھی قیامتیں ٹوٹنے والی تھیں۔ ہم ریڈ کراس کے اسپتال میں گئے جہاں لان میں سینکڑوں لاشوں کے ڈھیر تھے۔ مسخ کردہ بچے، دم توڑتی عورتیں، ہر منزل پر خون ہی خون اور تعفن، بدبو، میں نہ روسکا نہ کلیجہ تھام سکا۔ میں سکتے میں تھا۔

روانڈا پیٹریاٹک فرنٹ کے باغی فوجیوں کو یہ ملک اس حالت میں ملا تھا۔ قاتل ہوتو قبیلے کے افراد لاکھوں کی تعداد میں پڑوسی ملکوں کو فرار ہو چکے تھے۔ پال کاگمے کی حکمت اور تدبر یہ ہے کہ وہ اپنے قبیلے کے قاتل ہوتوئوں کو واپس لے کر آیا ہے کہ وہ ٹٹسی قبیلے کی یکطرفہ اقلیتی حکومت میں اپنے ملک کی بقا نہیں سمجھتا۔ اس سے پہلے کی حکومت دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ٹٹسی قبیلے کو واپس نہیں آنے دیتی تھی لیکن کاگمے نے ہوتو قبیلے کے بڑوں سے بات کی۔ حکومت میں شامل کیا۔ وزیر بنایا تاکہ ہوتوئوں کا اعتماد بحال ہو۔ وہ قاتل ہیں، غاصب ہیں لیکن روانڈا کے شہری ہیں۔ روانڈا کا ایک کمیشن بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی سربراہی کرنے والوں کو سزائیں بھی دے رہا ہے۔ ان کے کاروبار بھی بحال ہورہے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب بسوں کاروں کو روک کر شناختی کارڈ دیکھے جاتے۔ جس پر شناخت ٹٹسی لکھی ہوتی۔ اس سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا۔ اب شناختی کارڈ پر قبیلے کی شناخت کا اندراج ممنوع ہے۔ میں بھی حیرت زدہ ہوں۔ آپ بھی اگر روانڈا کے حالات کی ورق گردانی کریں گے تو پریشان ہوں گے کہ ناممکن کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ قبیلوں میں بدلے صدیوں چلتے ہیں۔ سندھ۔ جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں بدلے کی روایتیں اب بھی قائم ہیں۔ پال کاگمے اور اس کے ساتھیوں نے کس حوصلے اور کس حکمت سے دونوںقبیلوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی کہ ز ندگی بقائے باہمی میں ہے۔

اس کٹھن تعمیر نو میں سرکار کی طرف سے پرائیویٹ سیکٹر کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ اسٹیفن کی کتاب استعماری طاقتوں بلجیم، فرانس، جرمنی کی انسان دشمنی کا پردہ بھی چاک کرتی ہے کہ نسل کشی کی بالواسطہ فوجی مدد فرانس نے کیسے کی۔ اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو سیکرٹری جنرل کیسے کسی اقدام سے روکتے رہے۔ پڑوسی ممالک کا کیا کردار رہا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار مغربی ممالک افریقہ میں نسل کشی میں اب بھی ملوث ہیں۔ یہی کچھ ہمارے پڑوس میں بھی ہورہا ہے۔

تازہ ترین