• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کا اپنی حکومت کے آغاز سے ہی یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر وقت عوام کا دھیان اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے کوئی خودساختہ شوشہ گھڑ لیتی ہے اور پھراس شوشے کی اتنی تندہی کے ساتھ تشہیر کرتی ہے کہ اصل مسائل کہیں اورگم ہوجاتے ہیں ۔ عوام کی ساری توجہ حقیقی مسائل سے ہٹ کر ان شوشوں کی جانب مرکوز ہوجاتی ہے۔ حکومت نے اپنے ابتدائی دو سالوں میں احتسابی نعرے کی پرزور تشہیر کی آڑ میں عوام پر ڈالر کے مہنگا ہونے،مہنگائی میں ہوشربا اضافے ،قرضوں میں بے پناہ اضافے و حکومتی وزرا کی کرپشن آشکار نہیں ہونے دی۔آج جب عوام پر احتساب کی اصل حقیقت آشکار ہو گئی ہے اور وہ یہ بخوبی جان چکے ہیں کہ احتساب سوائے دھوکہ بازی،سیاسی انتقام اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔اب تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی موجودہ ناکامیوں پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ جانے بغیر ایک نیا شوشہ تیار کر لیا ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست اور وفاقیت پر کتنے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔اس وقت جب پورا ملک کورونا وائرس سے نبردآزما ہے اور تمام صوبائی حکومتیں اس پر قابو پانے کی کوشش میں ہیں تو بجائے اس کے کہ وفاقی حکومت تمام صوبوں کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیتی وہ کورونا وائرس کے خلاف اپنی ناکامی کا سارا بوجھ اٹھارویں ترمیم پر ڈالنے پر مصر ہے۔

پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت دراصل اٹھارویں ترمیم کی شکل میں نمودار ہوا ۔اٹھارویں ترمیم سے نہ صرف وفاق کو تقویت ملی بلکہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا تصور بھی ارتقا پذیر ہوا۔این ایف سی ایوارڈ کا متفقہ فیصلہ بھی اٹھارویں ترمیم کی بدولت ہی ممکن ہوا۔اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد جمہوریت پر ہر وقت لٹکتی تلوارجو کہ آٹھویں ترمیم کی صورت میں ضیاء الحق نے زبردستی نافذ کی تھی کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا۔یاد رہے اٹھارویں ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کرائی گئی جس سے خاص طور پر چھوٹے صوبوں سے پنجاب کے خلاف اٹھنے والی آوازیں بند ہو گئیں۔باہمی اعتماد کی بدولت ہی 2010ء کے این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب نے اپنے حصے کا ایوارڈ بھی چھوٹے صوبوں کو دے دیا تاکہ ان صوبوں کے پسماندہ علاقے بھی باقی صوبوں کے برابر آجائیں۔ اٹھارویں ترمیم کی بدولت قدرتی وسائل میں شراکت داری کے ساتھ ساتھ زیادہ انتظامی و مالی اختیارات بھی صوبوں کے حوالے ہوئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات سینٹر شبلی فراز نے وزارت اطلاعات کا حلف اٹھانے کے بعد میڈیا سے پہلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں خامیاں ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا کے خلاف متفقہ واضح حکمت عملی نہ بننے کی اصل وجہ اٹھارویں ترمیم ہے۔شبلی فراز کے علاوہ دیگر وفاقی وزراء بھی دن رات اٹھارویں ترمیم میں نقص نکالنے اور اس میں تبدیلی لانے کے حوالے سے بیان بازی میں مصروف ہیں۔تمام حکومتی نمائندگان کے پاس یہی دلیل ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے وفاق کوئی بھی متفقہ حکمت عملی ترتیب نہیں دے پا رہا اس لیے اس میں تبدیلی لانا ناگزیر ہے لیکن حکومتی اہلکار یہ نہیں بتاتے کہ آئین میں پہلے ہی سے ایسے ادارے موجود ہیں جن کی مدد سے صوبوں میں باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے مثلا این ایف سی کا ایوارڈ ہر پانچ سال کے بعد ایک فارمولے کے تحت دیا جاتا ہے اس لیے تحریک انصاف کی حکومت چاروں صوبوں کے ساتھ مل کر اس میں بآسانی تبدیلی کر سکتی ہے اور اٹھارویں ترمیم اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔اسی طرح ’’سی سی آئی‘‘ کے ادارے کو جان بوجھ کر پس پشت ڈالا ہوا ہے حالانکہ آئین کے تحت نوے دن کے اندراس کا اجلاس بلانا ضروری ہے مگر بجائے اس کے کہ سی سی آئی کا اجلاس بلایا جاتا عمران خان نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نیشنل کوآرڈنیشن کمیٹی کا قیام ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کردیا۔

حکومت کو اٹھارہویں ترمیم میں کوئی بھی تبدیلی کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جہاں پہلے ہی تاریخی وحدتوں میں آباد مظلوم اقوام اور طبقات کے سیاسی و مالی حقوق کو مسلسل پامال کیا جاتا رہا ہو،طبقاتی تفریق،صنفی امتیاز،اقلیتوں کے مسائل اور مذہبی فرقہ واریت ناسور کی شکل اختیار کر گئے ہوں اور ریاست اپنے اقتدار اور استحصال کو قائم رکھنے کے لیے غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہو اور اس کے نتیجے میں بار بار بحران بھی پیدا ہوتے رہے ہوں۔ وہاں ایسے نازک معاہدے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کسی بڑے خطرے کا موجب بن سکتی ہے اگر آج بھی زمینی حقائق کو تسلیم کرکے فیصلے نہ کیے گئے تو پھر ناپسندیدہ نتائج کی روک تھام بڑ ے سے بڑا ادارہ بھی نہیں کر سکے گا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی انہی ناانصافیوں کا پیش خیمہ تھی جب اس محکوم قوم کو اس کے سیاسی وسماجی حقوق سے مسلسل محروم رکھا گیا تو نتیجہ علیحدگی کی شکل میں نمودار ہوا۔ اٹھارہویں ترمیم کی بدولت پہلی بار پاکستانی ریاست نے حقیقی معنوں میں وفاقی اور فلاحی ریاست کا روپ دھارا تھا چونکہ اٹھارویں ترمیم کا مقصد پاکستان کو ایک قوم بنانا ہے جو اس کے اتحاد، استحکام اور خوشحالی کی ضامن ہو۔ صاف ظاہر ہے واحد پاکستانی قوم اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک اس کے فطری اجزا یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون اور سرائیکی باہمی رضا مندی سے اس کی تشکیل نہ کریں۔ یاد رہے قوموں کی تاریخ میں ایسے معاہدوں کو تقدس کا درجہ حاصل ہوتا ہے جن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی۔

تازہ ترین