• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان المبارک کا آخری عشرہ جاری تھا، مغرب کی اذان سے چند منٹ قبل ہوٹل سے نکلتے ہی مسجد نبوی کے سبز گنبد کا دیدار ہوا، درود شریف کا ورد کرتے ہوئے قدمین شریف کا رخ کیا۔ جاپان اور سعودی عرب کے دوست بھی ساتھ ہی تھے۔ سنا یہی تھا کہ مسجد نبوی میں آنے والے مہمانوں کی میزبانی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے کی جاتی ہے، سوچا اپنی قسمت بھی آزما لیتے ہیں لہٰذا جان بوجھ کر ایک ایسا گوشہ تلاش کیا جہاں نہ زیادہ رش تھا اور نہ ہی افطار کی تقسیم جاری تھی لیکن یہ سوچ کر قسمت آزمائی کی کہ دیکھا جائے کہ ہم گناہ گار بھی اللہ اور اللہ کے نبیﷺ کے مہمانوں کی فہرست میں شامل ہیں یا نہیں۔ ایک کونے میں بیٹھ کر مسجد نبوی کے نظاروں میں گم ہو گئے۔ دستر خوان خالی تھا اور پھر اذانِ مغرب سے چند لمحوں قبل نظر کرم ہوئی اور پھر کہیں سے افطار کا بہترین سامان دستر خوان پر سج چکا تھا، دل کو راحت ہوئی کہ ہم بھی میزبان کی رحمتوں سے محروم نہیں ہیں۔ بہترین افطار کے بعد نمازِ مغرب ادا کی۔ معلوم ہوا مولانا طارق جمیل صاحب بھی مدینہ منورہ میں موجود ہیں اور شدید علالت کی وجہ سے ہوٹل میں ہی نماز ادا کر رہے ہیں۔ ان کی عیادت کا ارادہ کیا۔ عشاء سے قبل ان کے ہوٹل میں موجود تھے، مجھے مہمان خانے میں بٹھایا گیا جہاں اور بھی مہمان موجود تھے۔ کچھ دیر بعد مولانا طارق جمیل مہمان خانے تشریف لا چکے تھے، بہت ہی نڈھال تھے، سر کا شدید درد قرار نہیں لینے دے رہا تھا لیکن مولانا بہت ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ ان کو معلوم ہوا کہ پڑوسی ملک سے آئے ہوئے میاں بیوی کئی گھنٹوں سے ملاقات کے منتظر ہیں توان کو بھی فوراً بلا لیا، ان کو خوب دعائیں دیں، ان کی فرمائش پر تصاویر بھی بنوائیں اور رخصت کیا۔ میں نے دل کی بہت سی باتیں کیں اور ساتھ ہی مولانا صاحب کو جاپان آنے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کرلی۔

عشاء کا وقت ہو چکا تھا۔ مہمان خانے کی کھڑکیوں سے پردے ہٹائے گئے تو مسجد نبوی آنکھوں کے سامنے موجود تھی، اذان ہو چکی تھی امام مسجد نبوی کی اقتدا میں ہی عشاء کی نماز ادا کی گئی، ایک دوست نے مولانا صاحب کو میری جاپانی اہلیہ کے قبول اسلام کے حوالے سے آگاہ کیا تو انھوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا، نماز عشاء کے بعد ہم نے مولانا طارق جمیل صاحب سے اجازت طلب کی، ایک بار پھر مسجد نبوی میں عبادات میں مصروف ہو گئے۔

عبادت کے دوران ہی معروف سیاسی شخصیت احسن اقبال پر نظر پڑی، وہ بھی ہر سال رمضان المبارک کا آخری عشرہ مسجد نبوی میں گزارتے ہیں۔ ان کے صاحبزادے بھی ساتھ تھے۔ احسن اقبال اعتکاف میں بیٹھے تھے اور عبادات میں مصروف تھے۔ احسن اقبال خود بھی ایک سچے عاشق رسولﷺ ہیں جبکہ ان والد بھی ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے جن کی وفات بھی مدینہ منورہ میں ہی ہوئی اور ان کی تدفین بھی جنت البقیع قبرستان میں ہوئی۔ یہاں آکر احسن اقبال والد صاحب کے لیے بھی ایصال ثواب کرتے ہیں، فجر کی نماز کے بعد مدینہ میں وفات پاجانے والوں کی نماز جنازہ ادا کی، اور ان خوش نصیب لوگوں کے جنازے کو کاندھا دینے کا شرف بھی حاصل کیا۔ اس کے بعد اپنے رفقاء کے ساتھ جنت البقیع قبرستان کا رخ کیا تاکہ یہاں مدفون تمام خوش نصیبوں کے لیے فاتحہ خوانی کی جا سکے۔ اس روز میں اپنے دوستوں کے ساتھ جنت البقیع سے کچھ ہی فاصلے پر کبوتر چوک پر کبوتروں کو دانا ڈالتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کتنے خوش قسمت ہیں یہ کبوتر جو نبی اکرمﷺ کے شہر کی فضائوں میں اڑتے ہیں۔

آج رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی، رات بھرعبادات کے بعد نماز فجر کی دوسری رکعت میں امام مسجد نبویﷺ نے جس طرح خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کے دربار میں رو رو کر دعائیں مانگیں اس سے مسجد میں ایک سماں بندھ گیا۔ ان کے ساتھ تمام نمازی بھی اللہ تعالیٰ سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے تھے۔ پھر رحمت الٰہی جوش میں آئی، اچانک بادل کڑکنے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں اور تیز بارش شروع ہوگئی۔ امام صاحب کی دعا بھی طویل ہوگئی، لوگوں میں خشوع و خضوع بڑھ چکا تھا، پھر سکونِ قلب کا احساس ہوا، نماز ختم ہوئی اور بارش بھی تھم چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے بارش کو قبولیت کی نشانی کے طور پر برسایا ہے، لوگ بہت خوش تھے۔ دل صاف اور ہلکے ہو چکے تھے۔ آج ایک سال بعد ایک بار پھر رمضان المبارک کا آخری عشرہ جاری ہے، مدینہ منورہ کی یاد ستا رہی ہے، دنیا بھر کے مسلمان رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلتہ القدر کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو یہ رات نصیب فرمائے اور سب کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دے۔ آمین!

تازہ ترین