• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ انوکھے جذبوں کا سفر ہے اچانک مخلوق کی اپنے خالق کے گھر حاضری کی تڑپ میں اضافہ ہوجاتا ہے اوراپنے مالک کے دربارمیں پیش ہونے کیلئے بندوں کی بیقراری بڑھ جاتی ہے تو وہ رَخت ِسفر باندھ لیتے ہیں۔ مجھے حرمِ کعبہ میں پہلی بارداخلے کی سعادت اُسوقت ملی جب میں نوجوان اے ایس پی تھا۔ خانہ کعبہ پرپہلی نظر پڑی تو ایک نورکی پھوارجسم وجاں سے ہوتی ہوئی روح تک اُترگئی اس کے بعدکئی بارحاضری ہوئی مگر پچیس سال پہلے کی لذّت ابھی تک قائم ہے ۔
حال ہی میں محکمانہ ترقی کا آخری زینہ طے ہوا تو دل حاضری کیلئے پھرمچلنے لگا۔یہ جان کرمزید خوشی ہوئی کہ پروفیسرسلیم منصور(جوایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف اورایک پاکیزہ انسان ہیں اورجنہوں نے خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی اللہ کی خوشنودی کیلئے وقف کررکھی ہے اوروہ بھی اس طرح کہ نہ ستائش کی تمنانہ صلے کی پرواہ )بھی جانے کے لیے تیارہوگئے ہیں۔ سلیم میرے گرائیں (ایک ہی گاؤں کے رہائشی) اور اس وقت سے دوست ہیں جب ہم دونوں سکول میں پڑھتے تھے اورگرمیوں کی چھٹیوں میں شیشم کی چھاؤں تلے بیٹھ کرسوشلزم اورپطرس کے فَنِ مزاح پربحث کیا کرتے تھے اوروہیں بہتے کھال (نالے) کے پانی میں دھو کر تازہ تربوزوں سے لطف اندوزہواکرتے تھے۔ پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیرِ محترم کا شکریہ کہ انہیں ویزے کیلئے خط لکھا تو چندروز میں ویزہ لگ گیا اورہم 18مارچ کو سعودیہ ائیرلائینزکے ذریعے جذبوں کے سفر پرروانہ ہوگئے۔جدہ ایئرپورٹ پر امیگریشن کیلئے تعینات عملے کی بے رخی اوربے اعتنائی دیکھ کرلگتا تھا کہ پنجاب کے تھانوں اورہسپتالوں کا عملہ تو ویسے ہی بدنام ہے یہاں کے امیگریشن سٹاف کوبھگتنے والوں کوپنجاب کے تھانیدارخوش اخلاقی کا مجسمہ لگتے ہیں ۔جوکام آدھے گھنٹے میں ہوسکتا تھا اس میں انہوں نے تین گھنٹے لگادئیے ۔ بے جااذّیت اورتکلیف کے مراحل سے گذر کراس جگہ پہنچے جہاں مسافراپنا سامان حاصل کرتے ہیں۔کافی تلاش کے باوجود ہم دونوں کا سامان نہ ملا۔زیادہ اہلکاروں نے توتوجہ نہ دی ایک آدھ اہلکارنے ایک کاؤنٹر کی جانب اشارہ کیا کہ اُدھر رابطہ کریں۔وہاں جاکر پوچھا تومعلوم ہوا کہ عمرے کی ادائیگی کیلئے آئے ہوئے مسافروں کو حج ٹرمینل پرلے جایا جاتا ہے وہیں ان کا سامان اترتا ہے ہمارا سامان بھی وہیں چلاگیا ہوگا۔اس سلسلے میں متعلقہ اہلکارسے مددچاہی تو اس نے کہا کہ میں حج ٹرمینل پر ضروری کوائف فیکس کردیتاہوں آپ پانچ چھ گھنٹے کے بعد پتہ کرلیجئے ۔اسی بے بسی کے عالم میں ڈی جی حج (بدنام ِزمانہ ِ حج سکینڈل کے بعد ایک نہایت ایمانداراورنیک نام افسرابواحمدعاکف کو ڈی جی حج لگایا گیا جو حسن ِ اتفاق سے میرے بَیچ میٹ بھی ہیں ) کوفون کیا انہوں نے ایک ذمّے دارافسرکو بھیجاجو چندمنٹوں میں حج ٹرمینل سے ہمارا سامان ڈھونڈلایا ۔اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا کہ کئی گھنٹوں کی مزید اذّیت سے بچ گئے ۔عاکف صاحب کا ڈرائیورہی ہمیں جدّہ ایئرپورٹ سے مکہ مکرمہ لے گیا راستے میں میقات پرغسل کرکے احرام باندھے ،مکہ پہنچ کرسامان پاکستان ہاؤس میں رکھا اوردھڑکتے دلوں کے ساتھ باب ِ عبدالعزیزمیں داخل ہوگئے۔ چند قدم چلنے کے بعد ہی وہ لمحہ آگیاجب قدم ،نظریں اوروقت سب کچھ تھم گیا۔ اللہ کے گھر پرنظرپڑگئی اورہاتھ بے اختیاردعاکیلئے اٹھ گئے ۔”اے ارض وسما کے خالق ومالک !ہمارے پاکستان کو امن اوراستحکام عطافرما، اے کائناتوں کے مالک !ہمارے ملک کو ایماندار اور مخلص قیادت عطا کر اور اسے ترقی وخوشحالی سے بہرہ مندکردے۔بزرگ کہتے ہیں خانہ کعبہ پرپہلی نظرپڑتے ہی سب سے پہلے جودعابھی مانگی جائے وہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے ۔میری یہی التجا رہی کہ اے رب العالمین مجھے اپنے پسندیدہ بندوں کی صف میں شامل فرمادے یا اپنے ناپسندیدہ انسانوں کی صف سے نکال دے “۔
برآمدہ عبورکرتے ہوئے ہم صحن یعنی مطاف میں آگئے جہاں اللہ کے گھرکا بھرپورنظارہ کرنے کے بعدہم نے طواف ِ کعبہ شروع کیا ، دعا ؤں کی ایک چھوٹی سی کتاب میرے پاس تھی جس میں طواف کے ساتوں چکروں کی مختلف دعائیں درج ہیں جو بڑی ہی جامع اوربامعنی ہیں۔ میں نے جب بھی ہاتھ بلند کرکے خانہ کعبہ سے ذرا اوپر نظریں جماکربآوازِبلنددعامانگی کہ’یا عالم مَا فی الصدور اخرجنی من الظلمت الی النّور(اے
دلوں کے حال جاننے والے ’مجھے (گناہوں کے) اندھیروں سے نکال کر (ایمان اور عملِ صالح کی) روشنیوں میں لے جا (۔تو یوں لگاکہ سننے والی قوّت نے جسم وروح پرسکون کی چادرڈال دی ہے طواف کرتے ہوئے جب بھی التجا کی کہ ’یَا واسع المغفرة انّ بَیَتکَ عظِیمٌ وَوَجھکَ کریمٌ وَاَنتَ یااللّٰہ حلیمٌ کریمٌ عظیمٌ تِحبُّ العَفْوَفَاعْفُ عَنّی‘۔(اے وسیع مغفرت والے ،بے شک تیراگھربڑی عظمت والا ہے تیری ذات بڑی عزّت والی ہے، اے اللہ تو بڑا باوقار بڑا کرم والا اوربڑی عظمت والا ہے تومعافی کوپسندفرماتا ہے اورمیری خطاؤں کو معاف کردے)تومحسوس ہوا کہ التجا سنی گئی ہے ۔یہ دعا مانگتے وقت بہت لطف آتا رہا کہ اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسئلکِ ایماناً کاملاً وَ یقینا صادقا ًو رزقاً واسعاً وَقلباً خاشعاً وَلِساناً ذاکِراً ورزقاً حلَالاً طیباً وَتوبةً نَصوحاً وتوبةً قَبلَ الموت وَراحةً عندالموت ومغفرة وَرحمةً بعدالموت والعفو عندالحساب وَ الفوز بالجنتہ والنجاة من النّار برحمتک یاعزیز یا غفار رَبِّ زِدْنِیْ عِلماً والحقنی باالصَّالحین۔طواف کے بعدمقام اِبراہیم پردونفل اداکئے اورسعی کیلئے صفااورمروہ کے درمیان سات چکرلگائے ۔چکر مکمل کرنے کے بعد بال کٹوائے اورعمرہ مکمل ہوگیا اورہم اپنی رہائش گاہ پرآگئے۔ہزارہامیل کے پرمصائب سفرطے کرکے لاکھوں لوگ مکہ میں کیا چیز دیکھنے کی تڑپ لے کرجاتے ہیں ۔ یہ لاکھوں پروانے دیوانہ وارکس کے گردچکر لگاتے ہیں یہ ایک عام ساکمرہ ہی تو ہے سیاہ غلاف میں ڈھکاہوا مگر اس کے آگے دنیابھرکی عظیم الشان عمارتیں ہیچ ہیں بڑے بڑے محلّات کی خوبصورتیاں اس سے منہ چھپائے پھرتی ہیں۔ ایسی شان ایسا جلال ایسی شوکت وعظمت نہ کہیں دیکھی نہ سنی۔ ہزارہا جلیل القدرپیغمبر اسی کمرے کے گردطواف کرتے رہے اسی سے لپٹ کر روتے رہے اورخالقِ کائنات سے التجائیں کرتے رہے ۔مالکِ دوجہاں نے اپنے ایک فرمانبرداربندے ابراہیم  کو حکم دیا کہ وہ اپنی رفیقہٴ حیات حاجرہ اورننھے بچے اسمٰعیل کو لیکر ہزاروں میل دُور سنگلاخ پہاڑوں اوراس بے آب وگیاہ وادی میں پہنچ کر ڈیرہ ڈال دے ۔بندے پرلازم ہے کہ وہ نتائج سے بے پرواہ ہوکر صرف حکم کی تعمیل کرتا ہے ابراہیم نے ایسا ہی کیا۔ یہ جلیل القدرانسان ہرمشکل ترین امتحان میں سرخروہواتو مالک نے خوش ہوکرکہا اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (میں تجھے تمام انسانوں کا امام بنانے لگا ہوں)پھرخالق کے اپنے حکم پریہ کمرہ بنایا گیا جسے اللہ نے اپنا گھر کہا اوراسے قیامت تک جائے امن اوراپنے نام لیواؤں کیلئے مرکز اورمحور بناکراسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے عظمتوں کی خلعت پہنادی ۔”یادکروہ وقت جب ہم نے ابراہیم کیلئے اس گھر (خانہ کعبہ)کی جگہ تجویزکی تھی ۔میرے گھر کو طواف کرنے والوں اورقیام و رکوع وسجودکرنے والوں کیلئے پاک رکھو“ ”یاد کروابراہیم اوراسمٰعیل جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے کہ اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے تو سب کی سننے اورجاننے والاہے“ جب ماں اوربیٹا بھوک اورپیاس سے تڑپنے لگے تو ہاجرہ  زم زم کے مقام پر بچے کولٹا کرصفا کی پہاڑی پر پہنچیں پھر مروہ کی طرف دوڑیں کہ شائد کوئی مدد کرنیوالا نظرآئے اس طرح ان دونوں پہاڑوں کے درمیان وہ سات دفعہ دوڑیں پھرآخری مرتبہ اللہ کا فرشتہ نمودارہوا جس نے زمین پرپاؤں مارا اورایک چشمہ نکل آیا جو صدیوں سے رواں دواں ہے ۔ابراہیم اورہاجرہ کی شانِ تسلیم ورضا اللہ کو اتنی پسندآئی کہ قیامت تک کیلئے اس کی پیروی مسلمانوں پر لازم قراردے دی۔نمازِظہر کے قریب ہم پاکستان ہاؤس سے نکل کر پھر حرم کی طرف چل پڑے ۔دائیں بائیں نظر پڑی تو کیا دیکھتے ہیں انسانوں کا اژدھام لاتعدادگروہوں کی صورت میں حرم کی طرف گامزن ہے۔ ہر علاقے ،ہررنگ،ہرنسل، ہرعمرکے لوگ، ایک کشش ہے جو انہیں کھینچ رہی ہے ۔ان کی چال میں ایک جوش وجنون ہے ایک جذبہ اورولولہ ہے۔ محبت ہے وارفتگی ہے ہرنمازپر یہی منظر ہے۔ دنیامیں انسانی ہجوم تو کئی اورجگہوں پر بھی دیکھے ہیں مگروہ ایک یا دو دن کیلئے ہوتے ہیں یہاں توہرروز اورہروقت لاکھوں انسان اوران میں یہ محبت یہ عقیدت اوریہ وارفتگی کہیں اورنظرنہیں آئی۔ دہریت اورلادینیت کی قوتیں میڈیا اور دوسرے وسائل استعمال کرنے کے باوجودبندوں کااپنے خالق کے ساتھ تعلق ختم تو کیا کمزورکرنے میں بھی بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ زائرین کعبہ کے ڈسپلن کا یہ عالم ہے کہ ایک آواز بلندہوتی ہے اللہ اکبر تو اس ایک آوازپرلاکھوں کا مجمع ترتیب وارقطاروں میں کھڑاہوا جاتا ہے پھرایسی ہی آواز پر رکوع وسجود میں چلاجاتا ہے۔نہ کسی کو یہ خیال ہے کہ اس کے آگے کوئی لڑکی ہے دائیں ہاتھ کوئی عورت ہے بائیں طرف کوئی خاتون ہے وہاں نہ کوئی عورت ہے نہ مردسب خالق ومالک کے عاجزبندے اور فقیر ہیں سب کے لبوں پر صدائیں، دعائیں اورالتجائیں ہیں۔حرمِ کعبہ کے آس پاس بلندوبالاعمارتوں کا جنگل اُگ آیاہے اس بدذوقی کودیکھ کرطبیعت مکّدرہوتی ہے حرمت کے پیش نظر کوئی عمارت حرم کے میناروں سے بلندنہیں ہونی چائیے تھی۔(جاری ہے )
تازہ ترین