• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
توقع کی جانی چاہئے کہ وسیع تر سیاسی اتفاق رائے اور بھرپور عوامی اعتماد کا حامل الیکشن کمیشن جلد محسوس کر لے گا کہ اس کا بنیادی وظیفہ آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا اہتمام کرنا ہے اور اس کارعظیم کیلئے آرٹیکل 62، 63 کی کیڑا کاری کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ قرض نادہندگان، ٹیکس چوروں، جعلسازوں، سزایافتگاں اور کرپٹ سیاستدانوں کیلئے کڑی (یا بے رحم) چھلنی بجا لیکن آئین کی بعض مبہم شقوں کو امیدواروں کی نیکوکاری اور پارسائی کا پیمانہ بنا لینے کی جو مشق شروع ہے اسے کسی طور روا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فلاں کلمہ سناؤ، دعائے قنوت پڑھو، تمہاری بیویاں کتنی ہیں؟دوسری شادی کی ضرورت کیوں پیش آئی، قومی ترانہ سناؤ، فلاں نماز کی کتنی رکعتیں ہیں؟ نماز جنازہ میں کیا پڑھا جاتا ہے؟ اگر کسی کے صادق و امین ہونے کا معیار یہی ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان تو پارساؤں اور نیکوکاروں کی جنت ہونی چاہئے۔ کیا قرآن حفظ کرلینے، باقاعدگی سے پانچوں نمازیں پڑھنے اور کئی کئی حج اور عمرے کر لینے والے، صداقت و امانت کی رفعتوں کو چھونے لگتے ہیں؟
یہ سب کچھ اس متبرک تصور کے نام پر ہو رہا ہے کہ ہماری اسمبلیوں کو صاحبان کردار سے آراستہ ہونا چاہئے۔ ان صاحبان کردار کو کٹہرے میں کھڑا کر کے”منکرنکیر“ قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں۔ یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ ٹیلیویژن کیمرے بھی نصب ہوں جو بعدازاں عوام الناس کو یہ سارے مناظر دکھائیں۔ اگر اس بازاری تماشے کا نام کاغذات کی جانچ پڑتال ہے تو دنیا کے مہذب ممالک کو بھی ہم سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ہمارے آئین کے تحت رکن پارلیمینٹ بننے کیلئے مذہب کی کوئی قید نہیں۔ مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی کوئی بھی انتخاب لڑ سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دوسرے مذاہب کے امیدواروں کی صداقت و امانت کس طرح جانچی جارہی ہے۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان نے بھی الیکشن کمیشن سے استفسار کیا ہے کہ اس نے آرٹیکل 62 اور 63 کیلئے کیا پیمانہ وضع کیا ہے؟ یہ کالم چھپنے تلک کمیشن کی وضاحت سامنے آجائے گی لیکن مجھے یقین ہے کہ کمیشن کے پاس ایک بے ذوق اور سطحی قسم کی تماشا گری کے سوا کوئی معقول پیمانہ نہیں۔ یہ سب کچھ کمیشن میں بیٹھے کچھ بیمار ذہنوں کی کرشمہ کاری ہے جو انتخابات کے سنجیدہ اور پُروقار عمل کو مضحکہ خیزیوں میں جھونک رہے ہیں۔ انتخابات کو معتبر بنانے والے امور کمیشن کے حاشیہ خیالی سے کوسوں دور ہیں۔
کرنے کے اہم ترین کام ابھی تک میلے کپڑوں والی سیلن زدہ کوٹھڑی میں پڑے ہیں۔ اب حکم جاری ہوا ہے کہ بیوروکریسی کو بدل دیا جائے۔ سیکرٹری کی سطح سے پٹواری تک ان سب کو ہٹا دیا جائے جو جانے والوں کے منظور نظر تھے اور جو انتخابی عمل پر منفی انداز میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ بہت سے دوسرے اختیارات کی طرح الیکشن کمیشن نے ازخود ہی تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار اپنے ہاتھ لے لیا ہے۔ بھارت میں ایسا اس لئے ہے کہ وہاں نگران حکومت کا کوئی تصور نہیں اور اقتدار پر فائز حکومت ہی بدستور موجود رہتی ہے۔ ہمارے ہاں اگر نگران حکومتیں آگئی ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ اگرچہ یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں بھی پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کا طوطی بولنے لگا ہے اور نگران حکومتیں، پی پی پی بندوبست کا تسلسل دکھائی دینے لگی ہیں بھٹو کی برسی پر پیپلزپارٹی نے تو تقریبات منسوخ کر دیں لیکن نگرانوں کی غیر جانبداری نے سرکاری تعطیل ضروری سمجھی۔ اس کے باوجود بہرحال روزمرہ انتظامی امور کی نگرانی اور انتظامیہ پر کنٹرول حکومتوں ہی کے دائرہ اختیار میں ہے۔ الیکشن کمیشن چاہتا تو نگرانوں کیلئے ایک ضابطہ اخلاق ضرور تجویز کر سکتا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی نگران وزیر اعلیٰ کو گھر گھر جا کر سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرنے اور انہیں پہلو میں بٹھا کر پریس کانفرنسیں کرنی چاہئیں۔ میڈیا کسی نشے سے کم نہیں۔ تصویر، تشہیر اور تقریر کی لت پڑ جائے تو چھوٹنے میں نہیں آتی۔ نجم سیٹھی صاحب سے میرا پیار اور احترام کا رشتہ ہے لیکن وہ شاید اپنے متعینہ وظیفہ کار پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ ان کی نگاہیں بیوروکریسی پر گڑی ہیں، وہ انتخابات کے بجائے لاہوری ثقافت کے عارض و رخسار نکھار رہے ہیں، ان کی ترجیحات میں پتنگ بازی جیسے موج میلے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں، ان کا زیادہ وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں غیر جانبدارانہ انتخابات کی انتظام کاری کے بجائے کیمروں کے سامنے گزرنے لگا ہے۔ ”آپس کی بات“ کا ایک گھنٹے پر مشتمل شو اب کئی گھنٹوں پہ پھیل گیا ہے۔ شاید انہیں خود محسوس نہ ہو رہا ہو لیکن ان کے انداز سے غیر جانبداری کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ سیاستدانوں سے ان کی ملاقاتیں کہانیاں جنم دے رہی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ایسی بیشتر کہانیاں من گھڑت ہوتی ہیں۔ سیٹھی صاحب سے پرخاش رکھنے والے بھی خاصے سرگرم ہیں۔ لیکن ایسی آب و ہوا ہی کیوں بنائی جائے جو افواہوں یا کہانیوں کیلئے زرخیز ہو۔ نگرانوں کا کام کم و بیش جج صاحبان جیسا ہے۔ انہیں اپنی کامل غیر جانبداری برقرار رکھنے کیلئے انتخابات میں شریک جماعتوں اور سیاستدانوں سے ہی نہیں، میڈیا سے بھی دور رہنا چاہئے۔ ڈیڑھ ماہ کی محدود سی بادشاہت میں اپنے ذوق خود نمائی پہ قابو پاکر فرض منصبی تک محدود رہنا، کارِ محال ہے لیکن عوام یہی توقع رکھتے ہیں۔
تمام سیکرٹریز اور سرکاری عہدیداروں کو تبدیل کر دینے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی تازہ تلقین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنا ہوم ورک ٹھیک طریقے سے نہیں کیا۔ اسے بہت پہلے سے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ موجود بیوروکریسی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جانا چاہئے۔ یہی حال میڈیا کا ہے جس کے بارے میں الیکشن کمیشن غفلت کی بکل مارے بیٹھا ہے۔ اسے کچھ خبر نہیں کہ پاکستان ٹیلیویژن کن ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا ہے۔ اسے کچھ اندازہ نہیں کہ ریڈیو پاکستان کے کارمختار کس کے اشارہٴ ابرو سے بندھے ہیں۔ اسے کچھ پتہ نہیں کہ وفاق یا صوبوں کے اطلاعاتی محکمے یا خبررساں ایجنسیاں کس کے قبضہ قدرت میں ہیں؟ شاید اب تک اس نے غور ہی نہیں کیا کہ انتخابات کی غیر جانبداری کیلئے ریاستی کنٹرول میں چلنے والے میڈیا کا کیا کردار ہے۔ کمیشن کی ٹیمیں کیمرے لئے امیدواروں کی سرگرمیوں کا تعاقب کر رہی ہیں لیکن اسے یہ اندازہ نہیں کہ سرکاری میڈیا کس کھیل میں لگا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ٹکٹوں کے آشوب سے نہیں نکل رہی۔ اس کے انتخابی سیل کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ پی ٹی وی کے خبرناموں اور پروگراموں کی مانیٹرنگ کرے۔ نئے پاکستان کی نعرہ بردار تحریک انصاف مطمئن ہے کہ پی پی پی کی ڈور سے بندھا پی ٹی وی، زرداری صاحب کی حکمت عملی کے عین مطابق عمران خان کو اجالنے میں مصروف ہے کیونکہ پیپلزپارٹی، نواز شریف کے ووٹ بینک پر ضرب لگا کر اپنا راستہ بنانا چاہتی ہے۔
کیپٹل ٹاک شو میں، میں نے نئے نگران وزیر اطلاعات جناب عارف نظامی سے گزارش کی کہ انتخابات کے حوالے سے ان کی وزارت کا کام سب سے زیادہ اہم ہے۔ کیا وہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان میں مورچہ زن جیالوں کو لگام ڈال پائیں گے؟ کیا الیکشن کمیشن اندازہ کر پائے گا کہ فرشتہ سازی کے علاوہ اس کے پاس کرنے کے کچھ اور کام بھی ہیں؟ کیا وہ سرکاری میڈیا کے کرتوں دھرتوں کی کرتب کاریوں پر نظر ڈال پائے گا۔
تازہ ترین