• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بزرگوں سے سنا کرتے تھے ’’صدقہ ردِ بلا ہے‘‘

پاکستان سلو موشن اقتصادی تباہی سے لے کر ’’اچانک‘‘ طیارے کی تباہی تک عرصہ دراز سے خوفناک قسم کی بلائوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے۔ 

ایک زخم بھرتا نہیں کہ دوسرا وار اسے لہولہان کردیتا ہے اور خون کے آنسو ہیں کہ رکنے تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ ہمارا وطن اک ایسے جسم کی مانند ہے جس کے ہر مسام میں زہریلے تیر اور نیزے گڑے ہوئے ہیں۔

کمال ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک ....... وزیر سے لے کر فقیر تک، فنکار سے لے کر شہسوار تک، پرہیز گار سے لے کر بدکار تک، اشراف سے لےکر اجلاف تک، آجر سے لے کر اجیر تک، سب ہی جانتے ہیں کہ مافیاز سے لے کر مونسٹرز تک نے مدتوں سے اس ملک کو گھیرا ہوا ہے لیکن مجال ہے جو کسی کے ٹھنڈے خون میں تھوڑا سا بھی ابال دکھائی دیتا ہو حالانکہ گھیرا، محاصرہ بہت تنگ ہو چکا ہے۔

اشرافیہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کی منحوس تصویر اور عوام دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی اور راشن کے اسیر، جنہیں نت نئے بھاشن کے قانونی، آئینی، جمہوری نشوں کا عادی کر دیا گیا۔ 

’’روٹی کپڑا مکان‘‘ کی بھنگ سے فارغ ہو کر اس ووٹ کی عزت میں مصروف ہو جاتے ہیں جس نے ان کے نیم جان جسموں پر لنگوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں چھوڑا۔

خوب صورت ترین ملک کو اک ایسی بےرحم منڈی میں تبدیل کردیا گیا جہاں کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا اور کسی کے ہاتھ میں ڈنڈی ہے اور باقی سب خالی ہاتھ اٹھائے من و سلویٰ و معجزات کے منتظر، جو آدم خور درختوں سے آموں کی امید کر رہے ہیں۔

یہاں درختوں کی شاخیں لہو پہ پلتی ہیں

مجھے تو خوف سا آنے لگا ہے چھائوں سے

صوفی شاعر کہتا رہ گیا۔

نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے ناں پایا

کیکر تے انگور چڑھایا ہر گھچا زخمایا

لیکن ’’زخمی گچھے‘‘ ان لُچے لفنگے معززین کے گرد محورقص رہےجو ملکی وسائل لوٹ لوٹ کر 22کروڑ لوگوں کو سائل بنا گئے اور اب بھی جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے رہے ہیں حالانکہ جنہو ں نے یہ نظام وضع کیا وہی اس کے اصل بینی فشریزتھے، ہیں اور رہیںگے اگر یہ تبدیل نہیں ہوتا اور یہی حقیقی ’’تبدیلی‘‘ ہوگی۔

خالق نے تو مخلوق کے لئے کوئی کسر نہ رہنے دی۔

26ویں بڑی معیشت، ایٹمی طاقت، 22کروڑ سروں کے ساتھ 44کروڑ ہاتھ لیکن پھیلے ہوئے ہاتھ، چھٹی ساتویں مضبوط ترین فوج، 642000سرفروش، مسحور کن ہوشربا حد تک حسین ترین علاقے، کسی حور کی آنکھ سے ٹپکے آنسو جیسی AANSUجھیل جو کاغان کی روح ہے۔ 

دنیا کی چھت ٹرینگو ٹاورز، گلگت بلتستان مع ان چار بلند ترین پیکس کے جو اس کرہ ارض کا فخر ہیں۔ پاکستان "ROOFTOP OF THE WORLD" جسے ایسا گہرا کشکول تھما دیا گیا جو بھرنے کا نام نہیں لیتا بلکہ اس میں جتنا قرضہ ڈالو اتنا ہی گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ 

دنیا بھرمیں نمک کی دوسری بڑی کانیں جنہیں نمک حرام چاٹ گئے، پولر ریجن سے باہر دنیا کاطویل ترین BIAFOگلیشیئر، 320قبل مسیح پرانی کھیوڑہ کی دوسری بڑی کان کا طلسمی سلسلہ، اس حالت میں بھی دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک، لیکن ہر شہری لاوارث مریض، دنیا کا سب سے بڑامین میڈ جنگل چھانگا مانگا جسے ہم نے جمہوری ہیرا منڈی مشہور کردیا اور جو تقریباً 12000ایکڑوں پر محیط ہے، اصل وجہ شہرت یہاں جمہوری ضمیروں کی ننگی نیلامی کا ’’بازارمصر‘‘ لگا کر ووٹ کو عزت دیتے ہوئے ووٹر کوبے عزت کیا گیا تھا۔ 

پاکستان کی تقریباً 25فیصد ’’سوہنی دھرتی‘‘ زیر کاشت جسے دنیا کا سب سے بڑا نظام آبپاشی سیراب کرتا ہے، تو سچ پوچھو یقین نہیں آتا کہ یہ اس پاک سرزمین کی صرف چند جھلکیاں ہیں جنہیں ناپاک ترین قیادتیں نصیب ہوئیں اور لوگ نصیب ہار گئے۔ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔

کیا واقعی تربیلا ڈیم ہم ہی نے بنایا تھا؟

نوجوان کی محیر العقول تعداد لیکن بےکار، بےروزگار۔

سب سے مشکل کام تو یہ ہے کیسے ڈھونڈیں کام

گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں بدنام

تو اس یوتھ کو اس جہنم میں کس نے جھونکا؟

پاکستان کے PLUSESفطری جبکہ MINUSESسو فیصد غیرفطری اور ’’مین میڈ‘‘ ہیں اور یہ دعویٰ ہذیان نہیں، مرے وجدان اور ایمان کا حصہ ہے لیکن پھر بھی نقصان در نقصان ہماری ہی نسلوں کا مقدر کیسے ہو گیا؟ 

میں معذرت خواہ ہو کہ موجودہ حالات کو ’’مین میڈ‘‘ لکھ گیا ......... نہیں یہ ’’مین میڈ‘‘ ہرگز نہیں تھے کیونکہ آدمی جتنا بھی گیا گزرا ہو، مادر، مادر وطن کی چادر پر ہاتھ نہیں ڈالتا لیکن یہاں:

سرمایہ کیا رائے چرائی جا سکتی ہے

پانی میں بھی آگ لگائی جا سکتی ہے

اگر کسی کی قوت سماعت سلامت ہے، ذہن کام کرتا اور ضمیر زندہ ہے تو جان لو کہ صرف بیان نہیں...... پاکستان کا صدقہ دینا ہوگا اور بات کالے بکروں کے صدقے سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ 

25 ،20سال پہلے میں لکھا کرتا تھا کہ یہاں جلادوں کو اوور ٹائم لگانا ہوگا، گلوٹین کو تین تین شفٹوں میں کام کرنا ہوگا تو کام چلے گا ورنہ کام تمام سمجھو۔ نوبت NOW OR NEVERتک تو آگئی یا آنے والی ہے سو ایسے مشوروں پر کان دھرنا ہوگا کہ

’’کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘

کالے مرغے اور کالے بکرے بھول جائو کہ ان چھوٹے موٹے صدقات کا وقت گزر گیا۔ اب صرف ڈائنا سورز، مگرمچھوں، شارکس، وہیل مچھلیوں، تیندوئوں، گینڈوں، وحشی سانڈوں اور گاڈزیلائوں جیسی اصلی اور اساطیری بلائوں کا صدقہ پیش کرنا ہوگا کہ اب صرف صدقہ ہی ردِ بلا ہوگا ورنہ بلائیں طاقتور ترین ہو جائیں گی اور کل کلاں کوئی ان کا صدقہ کرنے کاسوچ بھی نہ سکے گا۔

عوام سے لے کر اداروں تک سب کھائے یا کھوکھلے کردیئے گئے تو اور کس حادثہ کا انتظار ہے؟

ہر ’’لکڑی‘‘ کو دیمک لگی ہے

ہر ’’لوہا‘‘زنگ کی لپیٹ میں ہے

ہر ’’جسم‘‘ کینسر زدہ ہو چکا

پاکستان کا صدقہ دو

مجھے تو کوئی اور رستہ دکھائی نہیں دیتا

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین