• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ لوگوں سے ادبی زبان میں گفتگو کرنے کا سوچا بھی نہیں جاتا۔ وہ صحافی ہیں اور ان کی صحافتی تحریروں میں کبھی ادب کا ہلکا سا ذائقہ بھی آجائے تو حیرت تو نہیں ہوتی البتہ پڑھتے ہوئے لطف آ جاتا ہے۔ آپ نے اور میں نے ساری عمر نذیر لغاری کو صحافت میں صفحے کالے کرتے ہوئے دیکھا ہے یا پھر میڈیا کہ وہاں ہر چند سلیقے کی بات کم کم ہی ہوتی ہے۔ رہے حامد میر اور سہیل وڑائچ، ان کو ورثے میں لکھنے والا قلم ملا ہے۔ بات اس وقت صرف نذیر لغاری کی کرنی ہے جنہیں ایک خاتون سحر عمران مل گئیں اور ان کے ساتھ مل کر عرب شاعرات کے کلام کا ترجمہ کیا ہے ۔ ہم نے کبھی کبھی اور کہیں کہیں رابعہ بصری اور خنسا کی شاعری کو تھوڑا بہت پڑھا تھا اور یہ بھی پڑھا تھا کہ رسول ِ اکرم ؐ کو خنسا کی شاعری بہت پسند تھی۔ ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ کویت، مدینہ، نجد، مصر میں بہت نو عمر خواتین نے بھی آنکھیں اور دل کھول دینے والی شاعری کی ہے۔ عربوں کے درمیان رہ کر کبھی برقعے کے ساتھ اور کبھی بلا برقع مجمع میں شعر پڑھنا اور اس کے بعد شاہی اذیتیں سہنے کے باوجود، قلم سے رشتہ نہ چھوڑنا، یہ میرے لئے نہ صرف میدانِ حیرت اور باعث انبساط تھا یوں لگتا رہا کہ ان کی شاعری نے حلقہ ٔ زنجیر میں اپنی زبانیں رکھ دی ہیں۔ فلسطینی شاعرہ نازک الملکہ اور محمود درویش اور فرویٰ طوقان کو تو منو بھائی اور امجد اسلام امجد کے ترجموں کے ذریعہ طویل رفاقت تھی لیکن 9سال کی سارا بنت ثنا جب لکھے کہ’’میرے ابا میری امی کو کیوں پیٹتے ہیں۔ امی نہیں جانتیں کہ ابا کی قمیض کیسے استری کی جائے۔

سلمیٰ عمر12 سال لکھتی ہے’’امی آپ ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جاتیں اور اس سے اپنی مسکراہٹ واپس کیوں نہیں لے آتیں۔ ’’شیخہ الطاہری کی جس نے برقعے میں اور جیل میں نظمیں پڑھیں تو آیات القرفری کی نوری شاعری کو جب پڑھا تو جبر شہنشاہیت پدرسری نظام کے باوجود بلبلیں نوید دیتی ہیں کہ فی الوقت تو ساری دنیا میں بہار ہمارے انتظار میں باہر فطرت کے پاس کھڑی ہے۔ مگر مشرق ِ وسطیٰ کے بدو ذہنوں میں یہ شعلہ ٔ جوالہ، آنے والے دنوں کی ہلکی سی تصویر، خوش فہمی ہی سہی، چپکے سے بہار آنے کی تصویر ہے کہ میرے ذہن میں پھیلتی ہی جا رہی ہے۔ شیخہ لکھتی ہے ’’گندم کی تاریخ کے آغاز سے لے کر روٹی کے پہلے نغمے تک ایک بھوکا بچہ سوال کرتا ہے۔ کیا مجھے گرم روٹی کا ایک ٹکڑا مل سکے گا۔ آیات لکھتی ہے’’تم اب مذاکرات کی دعوت دیتے ہو ، ظلم وستم سفاکی اور بربریت کے درمیان، مذاکرات کے کیا معانی‘‘ رفیف زیادہ کہتی ہے ’’میں رنگ کے اعتبار سے ایک عرب عورت ہوں۔ خبردار، میرے غصے سے خبردار میں غصے کی تمام پرچھائیوں کو ساتھ لائی ہوں‘‘ سپہر لکھتی ہے ’’ایک عورت کی چھ جانیں گئیں، ایک عورت کا اپنا سر گیا، ایک عورت اپنے منہ پر دو تھپڑ مارتی ہے، ایک عورت اپنے شوہر کو گولی مار دیتی ہے، ایک عورت سرحدوں کو جنم دیتی ہے۔

اظہار الحق ہمارے ان دوستوں میں ہیں کہ ہمیں ان کی کڑواہٹ طعنہ زنی کے ساتھ صاف گوئی، حق گوئی اور بے باکی کے ساتھ اللہ کا یہ شیر روباہی کی جانب نہ شہر میں جاتا ہے اور نہ نظم و غزل ہیں۔ بہت سے شاعروں کے یہاں یکسانیت نثر اور شعر دونوں میں پائی جاتی ہے۔ اظہار میں کبھی کبھی قنوطیت حاوی آجاتی ہے۔ تبھی تو اس نے اپنے اظہاریئے یعنی کالموں کے مجموعے کا نام ’’میری وفات‘‘ رکھا ہے۔ یہ اشفاق احمد کی طرح ظاہری ملامتی صوفی نہیں ہے۔ ہم جیسوں کے سارے عیبوں کو تسلیم اور برداشت کرتے ہوئے مستحسن قرار دیتا ہے اور داعئی اجل کو لبیک کہنے والوں کو ’’اچھوں کو برا کہنے والی تحریر فراہم نہیں کرتا۔ اس کو اپنے پوتے سے بیٹے جتنی محبت ہے۔ماحول چاہے آسٹریلیا کا ہو کہ فتح جنگ یاٹورنٹو کا، سبھی جگہ سارے بچوں کو کھیل کے وقت مولوی صاحب کا پڑھانے کے لئے آنا اچھا نہیں لگتا۔ بچوں کو دیکھ کر اس کے اندر کا بچہ اپنی مسکراہٹ چھپانے لگتا ہے۔

کتاب کا عنوان، دوستوں کو چونکانے کیلئے ہے کہ ناواقف لوگ تو اس کو کورونا وائرس کا قصہ سمجھ لیں گے۔ نیلسن منڈیلا سے لے کر سنگاپور کے سربراہ معروف اسکالر ڈاکٹر محمد اسد تک کی عظمت کے قصے بہت محبت سے لکھے ہیں۔ پاکستان واپس آنے والے چاہے لندن سے ہوں کہ آسٹریلیا سے، وہ پاکستانی عادتوں پر اتراتے ہوئے، آوازیں لگاتے اور لائن توڑ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان موضوعات پر چاہے کتنی بار لکھ ڈالو۔ مگر عادتیں نہ بدلی ہیں اور نہ بدلیں گی۔ اظہار نے چونکہ بنگال میں بھی سرکاری نوکری کی ہے اور اسلام آباد میں تو سب سے سینئر پوسٹ پر رہنے کے باوجود سول سروس کی خامیوں کو مسعود مفتی کی طرح اجاگر کیا ہے۔ یہاں مجھے دیگر دوسرے افسروں کے اپنے کارنامے یاد آگئے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد لکھے گئے ہیں۔ مگر اظہار نے کہیں شیخی نہیں ماری۔ نورانی چہروں کی گل افشانیوں کی جانب اشارے بھی ملتے ہیں۔ منافقین کا تذکرہ بھی دلچسپ فقروں میں پڑھنے والے تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔

اظہار نے کتاب کا عنوان ’’میری وفات‘‘ ہمارے معاشرے کی پستی پر بضد رہنے اور ایسی جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی سیاست کو نام بدل بدل کر فخر یہ حکومت کرنا ہے ۔نوکر شاہی پہلی دفعہ ہے کہ موجودہ حکومت کے چلن سے خائف ہے کہ سامنے جیل کی سلاخیں نظر آرہی ہیں۔

اب ذرا ذکر ہو جائے اظہار کی عبارت آرائی کا۔ ’’جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے، پرچھائیوں کے عقب سے ایک نوحہ اُٹھتا ہے ایک اور جملہ ’’حیرت یاد کی طرح اور درخت سے لپٹی بیل کی طرح وجود کا حصہ بن جاتی ہے‘‘ ویسے کتاب کا عنوان ’’میری وفات‘‘ لکھ کر ایک کالم میں لکھ ہی ڈالا، موت کا ڈر کیسے ختم کیا جائے پھر یہ بھی لکھا ’’موت ایک اٹل حقیقت ہے‘‘۔ ہمارا سندھی کا بڑا ادیب عبدالقادر جونیجو جس نے ٹی وی کو لازوال ڈرامے دیئے وہ بھی گیا۔ خدا ہماری قوم کو اس وباسے نجات دے!

تازہ ترین