• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس کا شکار ہے۔ اب 3ماہ کے کلی اور جزوی لاک ڈائون پر شکوک کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ بڑے بڑے نامور پروفیسر صاحبان پہلے اس وائرس کو سمجھنے میں لگے ہوئے تھے، اب اس پر اپنے اپنے تحفظات؍ تحقیقات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نامور کیمسٹری کے پروفیسر مائیکل لیوٹ (Michael Levitt) جن کو 2013ء میں کیمسٹری میں نوبیل پرائز ملا تھا، نے برملا اس وائرس پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر تحقیق شدہ مفروضہ وائرس صرف اقتصادی ماہرین کی منطق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس پر سائنسی ماہرین کی رائے ایک جیسی نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی حتمی حل نظر آرہا ہے۔ ماسوائے اقتصادی تباہی، اربوں انسانوں کو لاک ڈائون کرکے بھوک پیاس اور خوف سے مارا جا رہا ہے۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر خصوصی طور پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ 1ارب 40کروڑ عوام کو 2ماہ غیر صحتمند علاقوں، مکانوں اور بستیوں میں قید رکھا گیا، جبکہ وائرس سے اموات صرف چند سو تھیں۔ بھوک اور گھٹن سے کتنی اموات ہوئیں، اس غریب ملک میں جہاں 30فیصد آبادی بے گھر ہے، 2وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں، کل کام ملے گا یا نہیں اس خوف سے کتنے لوگ مر گئے، اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ پوری دنیا کو بیروزگاری میں مبتلا کرکے کس کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ یقیناً یہ ایک گھنائونا کھیل، انسانوں کی آبادیاں کم کرنے اور معیشت پر کنٹرول کرنے کی سازش گزشتہ 10سال سے خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔ یہی نہیں امریکہ جو اس وائرس کی لپیٹ میں سب سے آگے ہے، یہاں کے دانشور اور ماہر اقتصادیات بھی اب کھل کر لاک ڈائون کے خلاف میدان میں عوام کے شانہ بشانہ آ چکے ہیں۔ ہر محاذ پر اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بیروزگاری سے تنگ آکر امریکہ کی پہلے 28ریاستوں نے بغاوت کی اور عوام کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے لاک ڈائون میں نرمیاں کیں، پھر اب پورے امریکہ سے لاک ڈائون ختم کر دیا۔ شراب خانے، جوا خانے، شاپنگ مالز ایک ایک کر کے سب کھول دیا گیا ہے۔ ریسٹورنٹس میں عوام کو کھانا کھانے کی اجازت بھی مل چکی ہے، کئی ریاستوں میں ماسک اور فاصلے بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ اٹلی جو اس مہلک وائرس کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں 35ہزار اموات اور لاکھوں مریضوں ہیں، اس کی پارلیمنٹ کی ایک معزز رکن سارہ کونیل نے اس وائرس کا موجد مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کو ٹھہرا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اربوں ڈالر خرچ کرکے بل گیٹس نے اپنی کورونا چپس بیچنے کے لئے یہ خوف پھیلایا اورعالمی میڈیا کو اپنے ساتھ ملا کر 8ارب چپس عوام کے جسموں میں لگا کر اپنے نامعلوم عزائم کے لئے 10سال سے راہیں پیدا کی گئیں تاکہ وہ ان کی ویکسین اور چپس سے بڑھتی ہوئی آبادیوں کو کنٹرول کر سکے۔ خصوصاً افریقہ کی غریب آبادیاں ان کا ٹارگٹ تھیں اس لئے انہوں نے اپنی ویکسین کو آزمانے کے لئے کینیا کو بہت بڑی رقم پیش کی جس کو کینیا کی حکومت نے ٹھکرا دیا، انہوں نے بل گیٹس کو بین الاقوامی مجرم ٹھہراتے ہوئے عالمی عدالت میں ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سینئر رکن اسمبلی کی تقریر کو عالمی میڈیا نے خاص کوریج نہیں دی اور دیگر میڈیا نے خصوصاً مائیکرو سافٹ کے زیر اثر ہونے کے سبب اس خبر کا بلیک آئوٹ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے اپنا الیکشن جیتنے کیلئے چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے یہ کھیل رچایا تھا اور بار بار کہہ رہا ہے کہ آپ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون بند کریں اور اس نے اس کو نیچا دکھانے کے لئے 28کمپنیوں کو وہاں سے نکال کر انڈونیشیا میں نئے معاہدے پر دستخط کئے۔ الیکشن جیتنے کے لئے اسی طرح فلسطین کو تقسیم کر کے بیت المقد س پر یہودیوں کے قابض ہونے کا جو پلان بنایا تھا وہ سارا اس کے اگلے الیکشن کا اہم حصہ ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت جو امریکی یہودیوں کے نو، دس اداروں کے پاس ہے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے پوری دنیا کو مفلوج بنانا چا ہتے تھے اور وہ اس پر کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں، اس لئے یہ وائرس کا معاملہ شک و شبہات سے بھرپور ہے۔ اس وقت اس وائرس کی وجہ سے ایئر لائنز کی صنعت کو 60ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہزاروں طیارے پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر قطار در قطار کھڑے طیاروں کے قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ لاکھوں ایئر لائنز اسٹاف کو فارغ کیا جا چکا ہے، اس سے ملحق ہوٹل، ریسٹورنٹس اشیاء کی بندش سے 130ارب ڈالرز کی مزید انڈسٹری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ البتہ پیٹرول کی قیمتیں 30ڈالر تک واپس آچکی ہیں۔ عرب امارات، افریقی ممالک، کوریا، تائیوان، یورپی یونین اور برطانیہ کی حکومتیں لاک ڈائون ختم کر چکی ہیں اور آہستہ آہستہ دیگر ممالک بھی لاک ڈائون بتدریج ختم کر رہے ہیں۔ جولائی تک حتمی طور پر پوری دنیا لاک ڈائون سے چھٹکارا پا سکے گی، بشرطیکہ اس وائرس کے منفی اثرات میں غیر معمولی تیزی نہ آئے۔ مگر ایک بات ہے ہر طبقہ میں اس وائرس پر شک و شبہ کا اظہار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھوک و افلاس اور بیروزگاری ہے جو 90فیصد دنیا کی آنکھیں کھول چکی ہے۔

تازہ ترین