• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برسوں ہوئے حضرت منیر نیازی نے کہا تھا

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

آج جبکہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک بھی ایک جہاں آباد کر چکے ہیں ہم ہیں کہ ہنوز اُس آسیب کے اثر سے نکلنے نہ پائے ہیں جس کا ذکر منیر نیازی نے کیا تھا، رائیگاں جاتے ان گنت ان ماہ وسال کے بعد اب کہ جب عید آئی ہے تو گویا نہ صرف کورونا آیا ہے بلکہ ملک کے عوام کے در و غم کو جیسے ’’چار چاند‘‘ لگ گئے ہیں، ہر دکھ روشنی بن کر اس ملک کے استحصالی نظام کے ہر شعبے کو عیاں کئے ہوئے ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں معاشی عدم مساوات کے نتیجے میں غربت میں تو اضافہ ہو ہی رہا ہے کہ معروضی صوتحال میں موقع پرست قیادت کے باوصف نت نئے مسائل نے ملک کی اکثریتی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شاید ہی قلب سلیم رکھنے والا کوئی ایسا ذی روح ہو جو اس صورتحال پر فکر مند نظر نہ آتا ہو۔ غربت کے ساتھ اب کورونا کا احساسِ عدم تحفظ ہر نفس کو دامن گیر ہے۔ گزشتہ ایام میں پاکستان کے در و بام پر ایسے ستم گر ذخیرہ اندوزوں کو قبضہ جمائے دیکھا گیا جو مفلوک الحال انسانوں کو فکرِ رزق سے تا ابد آزاد کرانے کیلئے سانس کی ڈور کے انقطاع کی خاطر مقراض آہن لئے کھڑے تھے۔ اس مافیا نے ایسی قسمت پائی ہے کہ ہرآن ان کے عوام دشمن کرتوت ایک جھلک کے بعد کسی ایشو تلے دب جاتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی تو یوں خام خیالی ہے کہ موجودہ نظام کی ضرورتیں انہیں تحفظ دیے ہوئے ہیں۔ توپھر کیا ایسے استبدادی نظام کے ہوتے ہوئے کسی بھی عید کی خوشیوں کی چمک و مہک غریب عوام کے دروازے تک پہنچ سکتی ہے! یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ خوشی کے موقع پر غم سے وابستہ عوامل جیسے بیماری، جدائی اور غربت کا احساس سنگین تر ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی عیدوں کی طرح یہ عید بھی اسی طرح کا احساس لئے ہوئے آئی ہے۔ یہ مانا کہ کورونا کی وبا نے دنیا کے 122ممالک کو آزمائش سے دوچار کئے رکھا ہے لیکن کیا دنیا کے کسی ایک بھی ملک میں غریبوں سے آخری نوالا چھیننے اور قومی خزانہ کو مزید لوٹنے کیلئے نام نہاد رہنما ایسے متحرک ہوئے ہیں؟ کیا پاکستان میں یہ تاثر عام نہیں ہو چکا کہ وہ لوگ جن کا کسی اور مرض سے بھی انتقال ہوا، انہیں بھی کورونا میں شامل کیا گیا، جناح اسپتال کراچی کی ڈائریکٹر نے میڈیا پر آکر اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اسپتال میں کورونا ٹیسٹ کا کوئی نظام موجود نہیں، ایسےمیں اس سوال کا پوچھا جانا اہمیت کا حامل ہے کہ پھر اس اسپتال سمیت دیگر سرکاری اسپتالوں میں کس بنیاد پر مرنے والوں کو کورونا میں شامل کیا گیا؟ ہمارے ہاں ہر معاملے میں کیوں قوم حکمرانوں کے کہے پر اعتبار کیلئے تیار نہیں ہوتی! وقت کا نوحہ یہ نہیں ہے کہ پستی ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے یا ہم عذاب کے مستحق ٹھہرے ہیں بلکہ تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ اس مملکت خداداد میں آج تک کوئی نظام ہی قائم نہیں ہو سکا یا اگر قائم ہوا تو اسے مستحکم رہنے نہیں دیا گیا، اب جب کوئی نظام ہی استوار نہ ہو تو پھر بالخصوص ایسے ہنگامی حالات میں عوام کے حقوق کا تحفظ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ ایسے منظر نامے میں تو وہ گروہ، طبقے ہی بقا پا سکیں گے جو طاقتور ہیں اور یہی نقشہ ان دنوں مشہود ہے۔ بالادست طبقات کی ”حب الوطنی“ کے گیتوں کی دھوم اپنی جگہ سچ مگر یہ ہے کہ اس ملک میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے۔ یہی ”نظامِ زر“ ہے جس کی اٹھان ہی غریب کے سینے پر قدم رکھ کر استوار ہوتی ہے۔ غریب کش اقدامات کے پہلو بہ پہلو اس ملک کا استبدادی نظام ہر لمحہ غریب عوام کا مذاق اُڑانے پر تُلا ہوا ہے، رواں ماہ کمشنر کراچی نے ایک نوٹیفیکیشن میں ’’موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ پہننے سمیت مختلف پابندیاں عائد کی ہیں‘‘ پابندیاں اپنی جگہ، مگر کیا اس کیلئے یہی وقت موزوں تھا؟ دوسری طرف سپریم کورٹ کے کاروبار کھولنے سے متعلق فیصلے سے قبل سندھ کے وزیر اطلاعات نے ارشاد فرمایا تھا کہ عوام عید کی شاپنگ نہ کریں، اب ایسے وڈیرے ہر روز نیا قیمتی زرق برق جوڑا پہن کر اگر جلوہ افروز ہوں تو کارِ ثواب، لیکن عوام پر عید کی خوشی بھی گوارا نہیں، احتیاطی تدابیر اپنی جگہ، مگر ان تدابیر کے نام پر عوام کا مذاق تو نہ اُڑایا جائے۔ عرض یہ ہے کہ جب قیادت ہی ناک سے آگے سوچنے سے عاری ہو تو پھر ایسے ملک میں ایک عید پر کیا موقوف ہر شام، شام غریباں بن کر رہ جاتی ہے۔ حضرت اقبالؔ نے کہا تھا

خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر

تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی

تازہ ترین