• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حادثہ اور وبا

شہیدانِ پی آئی اے، انا للہ وانا الیہ راجعون، الھم اغفر لھم، سب کہیں گے حادثہ لینڈنگ گیئر کے نہ کھلنے سے ہوا، انجن فیل ہو گئے، پرندے ٹکرا گئے مگر سچ یہ ہے کہ ایئر پورٹ کے گرد اونچی عمارتوں سے جہاز ٹکرا گیا جو غیرقانونی طور پر ایئر پورٹ کے آس پاس کھڑی کی گئیں اور ایک ہولناک حادثہ ہو گیا جو ہمارے اربابِ بست و کشاد اکثر بوتے ہیں اور بےگناہ، بےبس شہری اس کو کاٹتے اور برداشت کرتے ہیں۔ تحقیقات کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے مگر اصل سبب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، اگر کسی بھی دور کی حکومت نے ہوائی اڈوں کے اردگرد فلک بوس عمارات تعمیر نہ کرنے پر عملدرآمد کیا ہوتا تو پچھلے حادثے ہوتے نہ یہ حادثہ، جہازوں میں اکثر کوئی خرابی نہیں ہوتی، خرابی لاقانونیت کا قانون نافذ کرنے والوں کی مفاد پرستی میں ہوتی ہے، یہ بدنصیب طیارہ 96بدنصیبوں کی ہلاکت کا باعث نہ بنتا اگر ایئر پورٹ کے اردگرد اونچی عمارات بنانے کی اجازت نہ دی گئی ہوتی، یہ ملک ایک طویل عرصے سے چند لوگوں کی دولت پرستی کے لئے استعمال نہ کیا گیا ہوتا تو آج 96خاندانوں پر تباہی اس طیارے کی شکل میں نہ گرتی، اب پچھتائے کیا ہوت جب ’’نااہل‘‘ چگ گئے کھیت۔ حادثہ تو وہ ہوتا ہے جس میں ہمارا ہاتھ نہیں ہوتا، اور جہاں اپنوں کو، خود کو نوازنے کا چلن عام ہو وہاں حادثے نہیں بےقصور عوام کا قتل ہوتا ہے، کورونا بھی اس لئے آیا کہ پوری دنیا میں مفادات کی دوڑ اور ظلم کا بازار گرم ہے، ہم دور کیوں جائیں کہ اپنے ملک کی 70برسوں میں ایسی درگت بنا دی گئی کہ جیسے یہ عوام کا ملک تھا حکمرانوں کا نہیں، چھوڑیں تحقیقات کو، روز و شب ہمارے سامنے یہ تماشا ہوتا رہتا ہے، ان کا افسوس ان کا نوحہ عید منانے مقدس ماہ میں جو اپنے اپنے گھر آ رہے تھے اور لواحقین انہیں لینے ایئر پورٹ آئے تھے، اللہ تعالیٰ اُن سب شہداء کو گوشہ فردوس میں آسودہ فرمائے۔

٭٭٭٭

شفاف غلاظتیں

وطن عزیز میں ہر حکومت شفاف ہوتی ہے، انتخابات سے لے کر خوابات تک سب کچھ شفاف ہے، حالانکہ ہمارے ہاں تو جو شیشہ تیار ہوتا ہے وہ شفاف نہیں سسٹم کیا خاک شفاف ہوگا، لفظ شفاف میں جو غلاظتیں ڈالی جاتی رہیں قیامت کو خود یہ لفظ ہی بڑے شفاف انداز میں بیان کرے گا، ہمارے ہاں کوئی حادثہ نہیں ہوتا ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے جسے ہم حادثہ قرار دے کر فرار کی راہ تلاش کرتے ہیں۔ کورونا وائرس فقط احتیاط کی مار ہے مگر ہم نے تو لاک ڈائون کے ہونے نہ ہونے کا فرق ہی مٹا دیا۔ اسی طرح شفافیت اور غلاظت کو بھی ایک کر دیا، اگر تجاوزات کو سرپرستی نہ ملے تو آپ کو پورے ملک میں کہیں یہ نظر نہ آئے۔ کون کہتا ہے کہ رٹ آف گورنمنٹ نظر نہیں آتی، لاقانونیت کا نفاذ تو ہر حکومت کرتی ہے، اس سے بڑھ کر کیا رِٹ ہو؟ تجاوزات سے ہماری مراد ملک میں ہر طرح کی بدنظمی، غیرقانونی افعال اور بالخصوص عمارتی تجاوزات ہیں بہرحال جہاں گٹر اور شفاف پانی کے پائپ دو ہو کر بھی ایک ہوں وہاں نہ گٹر کا پانی گٹر کا اور نہ شفاف پانی کسی شفاف کنویں کا، گویا ہم نے 21ویں صدی میں غلاظت اور شفافیت کو اس طرح آمیز کیا کہ غلاظت بھی شفاف ہو گئی یعنی شفاف بھی غلیظ ہو گیا، اگر نیت درست نہ ہو صرف ہوسِ زر ہی ہو تو اعمال خدا کی بارگاہ میں رد ہو جاتے ہیں، اور ہم عوام مردود خلائق ٹھہرتے ہیں۔ ہمیں تاج نہیں پہنائے جاتے، تخت پر بیٹھنے نہیں دیا جاتا، یوں لگتا ہے 70سال سے کوئی ایک ہی خاندان حکومت کر رہا ہے، باقی چاکری کرتے ہیں اور اب تو وہ بھی کسی کو نہیں ملتی۔

٭٭٭٭

اولڈ ایج بینیفٹ بھی ندارد

وزارت قانون نے پنشنرز کی پنشنز میں حکومت کے اضافے کا اعلان ہوا میں اڑا دیا، جبکہ خود حکومت ہی نے EOBIکے 6لاکھ پنشنرز کی پنشنز میں یکم جنوری 2020میں ساڑھے چھ ہزار پنشن میں دو ہزار کا اضافہ کر کے ساڑھے آٹھ ہزار ماہانہ کر دیا تھا، وزارتِ قانون نے یہ اضافہ واپس لے کر 6لاکھ بزرگ مزدوروں کے لئے مالی مشکلات پیدا کر دی ہیں، یہ کیسی حکومت ہے کہ اس کی ایک وزارت جو دیتی ہے دوسری وزارت واپس لے لیتی ہے، کورونا وائرس کی ناگہانی آفت کے دوران یہ پنشن کی ادائیگی کسی نعمت سے کم نہ تھی، یہ کیا ستم ہے کہ قانون کی وزارت نے اضافہ شدہ رقم واپسی کا عندیہ دے دیا ہے، اولڈ ایج بینیفٹ کے پنشنرز کے ساتھ یہ زیادتی ظالمانہ فعل ہے، وزیراعظم سے تمام پنشنرز نے پُر زور مطالبہ کیا ہے کہ اضافہ شدہ پنشن بلاتاخیر جاری کی جائے، کیا وزارتِ قانون کے پاس ایسا کوئی قانون ہے کہ پنشنرز کو اضافہ شدہ رقم جو خود حکومت نے جاری کی روک دی جائے۔ 60لاکھ پنشنرز کی ماہانہ 8500روپے پنشن کو بحال کیا جائے، اس اضافے کی منظوری تو EOBIکے بورڈ آف گورنرز نے ادارے کے وزیر زلفی بخاری کے حکم اور وزیراعظم کے اعلان کے مطابق دی تھی، پھر کیا وجہ ہے کہ اسے وزارت قانون نے رد کر دیا۔

٭٭٭٭

عید آئی عید آئی!

....Oعید کا ٹریفک پلان آ گیا،

عید ساتھ کورونا لائی اور پی آئی اے کا حادثہ لائی، مگر عید کے خریداروں کا رش تو ایسا کہ ماسک اتر گئے کھال ادھڑ گئی، مہنگائی نے خوب رونق بڑھائی، کیا عید کا یہ رش پھر بھی؟ کہیں ہماری غربت بھی دو نمبر تو نہیں؟

....Oجہاز حادثے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ، وزیراعظم نے بھی شفاف تحقیقات کا حکم جاری کر دیا۔

پچھلی انکوائریاں بھی اس قدر شفاف و لطیف کہ آج تک دکھائی نہ دیں۔

....O سربراہ پی آئی اے:میں نے پائلٹ کو لینڈنگ کے لئے کہا اس نے گرائونڈ کا فیصلہ کیا۔

یہ تو تحقیقات سے معلوم ہو جائے گا، بشرطیکہ تحقیقات عام کی جائیں، آخر تحقیقات میں ایسی کونسی بات ہوتی ہے کہ سامنے نہیں لائی جاتیں۔

ہماری پی آئی اے کو اپنے تمام ایئر پورٹس کے اردگرد بلند و بالا عمارات گرانے میں تاخیر نہیں کرنا چاہئے، خدانخواستہ کہ مزید کوئی حادثہ پیش آئے۔

ہماری گزارش ہے کہ عید سادگی سے منائی، جائے سوگ بھی منایا جائے، کیونکہ قوم حادثہ در حادثہ سے دوچار ہوئی ہے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین