• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہر زبان یہی بول رہی ہے، میاں نواز شریف واپس آئو ہم سے غلطی ہو گئی ہے۔ دو برس نہیں گزرے کہ ثابت ہو گیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی سیاست کو دوام حاصل رہے گا جبکہ پھڑیے مٹ جائیں گے۔ آخر سچ سامنے آہی گیا کہ نواز شریف دور میں معیشت پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔ نااہل حکومت کی نالائقیوں کی وجہ سے معاشی اشاریہ منفی ایک اعشاریہ چھ رہے گا، جو بہت ہی خوفناک ہے۔ چینی رپورٹ کے بعد حکومتی نمائندے زور دے رہے ہیں کہ (ن)لیگ نے بھی پچھلے پانچ برسوں میں سبسڈی دی لہٰذا اصل مقدمہ نواز اور شہباز پر ہونا چاہیے۔ کوئی انکو یہ سمجھانے والا نہیں کہ نواز شریف جس چینی کو 52روپے چھوڑ کر گیا وہ اب 85روپے کلو بک رہی ہے۔ ریاستِ مدینہ کے ٹھیکیدار ایک ہی جھٹکے میں چینی 90روپے کے لگ بھگ لے گئے۔ شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ ایک روپے فی کلوقیمت بڑھا کرپانچ ارب روپے کمائے جاتے ہیں یعنی چینی کی قیمت میں 33 روپے اضافہ کرکے پونے دو سو ارب روپے کمائے گئے۔ قیمت میں اضافے اور برآمد کی اجازت دینے والوں یعنی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے نام رپورٹ میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ رپورٹ محض ڈرامہ ہے جس پر عوام یقین نہیں کریں گے۔ حکمران ذرا باہر نکل کر دیکھیں کہ ان کی گورننس کیلئے کیسے کیسے بدفال مجبور عوام کے منہ سے نکل رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں شہباز شریف جیسی زیرک طرز حکمرانی کا کال پڑا ہوا ہے کیونکہ موجودہ حکومت نے ہر طرف نالائقی پھیلائی ہوئی ہے۔ یہ تو صرف اسپتالوں میں ہی طبی عملے کو حفاظتی سامان تک بھی بروقت فراہم نہ کر سکے۔ اقتدار کی راہداریوں میں اٹھارہویں ترمیم میں ایک بار تبدیلی کا ڈول ڈالنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ ماضی میں تحریک انصاف کہا کرتی تھی کہ مرکز میں (ن)لیگ کی حکومت ہمیں پورے وسائل نہیں دیتی، کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ‏اب جبکہ مرکز کے ساتھ ساتھ تین صوبوں میں تبدیلی سرکار کی اپنی حکومتیں ہیں تو کہتی ہے مرکز کے پاس وسائل نہیں ہیں، اٹھارہویں ترمیم ختم کرو۔ اسکی وجہ سے زیادہ تر وسائل صوبوں کے اختیار میں ہیں۔ نہ جانے کس کو بےوقوف بنا رہے ہیں۔ یہ کیسا خلیفہ ہے کہ دعویٰ ریاستِ مدینہ کا کرتا ہے جبکہ جہاد کا محض لفظ ادا کرنے پر اسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ کشمیری رہنما ‏ریاض نائیکو کی شہادت پر ٹویٹ تک نہیں کرتا؟ کشمیر کو غصب کر لیا جاتا ہے تو کہتا ہے کیا بھارت پر حملہ کردوں؟ وہ مثالیں مغربی آزادیٔ اظہار رائے کی دیتا ہے جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف کو بغیر ثبوت قید کر لیتا ہے۔ جس میڈیا کے کندھوں پر چڑھ کر، تختِ اقتدار پر براجمان ہوا اسی میڈیا کو لوہے کے چنے چبوا کر زندہ درگور کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ وہ دن رات یورپی اور امریکی جمہوریت اور اختلاف رائے کے حسن کی مثالیں دیتا رہتا تھا جبکہ عملی طور پر وہ دو برسوں میں حزبِ اختلاف کو دیوار میں چن دیتا ہے۔ فیصلوں کی کس کس ارزانی کا ذکر کریں۔ آئی پی پیز کے خلاف حکومتی بیان دیوانے کی بڑھک ثابت ہوا۔ تیس روپے تک پٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں لیکن مجال ہے کہ بجلی، پانی، گیس، سمیت اشیائے خورونوش کی کسی قیمت میں ایک پیسہ بھی کمی واقع ہوئی ہو۔ ان نااہلوں کی سوچ ابھی تک اس طرف مبذول ہی نہ ہوئی ہے۔ ان کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ محض جھوٹے پروپیگنڈا کے بل پر حکومتیں بننے کے باوجود چل نہیں پاتیں اور کچھ عرصہ بعد منہ دکھانے جوگی بھی نہیں رہتیں۔ تفتان سے کورونا کو پورے ملک پر مسلط کرنے والے کس قدر ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ کیا پوری دنیا میں کورونا تفتان سے پھیلا؟ ہر عوامی محاذ پر حکومت کو ناکامی کا سامنا ہے لیکن ہٹ دھرمی اتنی کہ بال بھر بھی شرمندگی نہیں۔ پارلیمنٹ کا سہرا پڑھنے والے آرڈیننس پر آرڈیننس جاری کرکے اسی کی بےتوقیری پر تلے ہوئے ہیں۔ کورونا آمد سے پہلے ہی وہ معیشت کو ڈبو چکے تھے اور کورونا کی آمد کے بعد قومی صنعتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کرپشن اور احتساب کے ڈھول پیٹنے والوں کے دامن پر جس تسلسل سے داغ نمودار ہورہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ بھارت سے سستی ادویات منگوانے اور 3، 4سو گنا زیادہ قیمت میں بیچنے کا معاملہ بھی اسی طرح دبایا جا رہا ہے جیسے اس سے پہلے ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافےکا معاملہ کو دفن کردیا گیا ہے۔ اور تو اور ایکسپو سنٹر لاہور میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل فیلڈ اسپتال بنانے پر لاگت 90کروڑ روپے بتائی گئی یعنی 9لاکھ روپے کا ایک بستر، نہ کوئی بجلی کی ساکٹ، نہ ڈرپ سٹینڈ اور نہ ہی وینٹی لیٹر۔ یہ کس کو احمق بنا رہے ہیں۔ پہلے بلاناغہ تین ٹائم وہ یہ بیانیہ پیٹا جاتا تھا کہ این آر او نہیں دوں گا۔ کابینہ کے اکثر پھل کیڑہ زدہ نکل آنے کے بعد این آر او کی سی ڈی نکال کر پھینک دی گئی ہے۔ ناتواں شخص قوی ترین کو مناکر اقتدار بچانے کی آخری کوشش کر رہا تھا کہ دوسری جانب قادیانی مسئلہ پر (ق)لیگ نے حکومت کو ٹھینگا دکھا دیا جس کے بعد نیب کے نوٹس نے چوہدری برادران کو مزید بڑھکا دیا ہے۔ چوہدری برادران کی جانب سے سخت ردِعمل آنے کے بعد معاملات بظاہر رک گئے ہیں لیکن اقتدار کی کرسی پر لرزہ طاری ہو چکا ہے۔ ریاستِ مدینہ نے امریکہ میں پھنسے پاکستانیوں سے یک طرفہ ٹکٹ کے عوض ساڑھے تین لاکھ روپے تک وصول کرکے بقلم خود انکے دلوں سے تبدیلی کا کیڑا ہمیشہ کیلئے نکال دیا ہے۔

تازہ ترین